نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

604

آج کی دنیا میں حکمرانی کے انداز واطوار اور آداب سکھانے کے لیے یونیورسٹیوں میں نصاب پڑھائے جاتے ہیں، اعلیٰ درجے کی شہادات (Degrees) عطا کی جاتی ہیں، اس حوالے سے یونیورسٹیوں میں پولیٹیکل سائنس، بین الاقوامی تعلقات، سفارت کاری اور حُسنِ اہتمام (Management) کے شعبے قائم ہیں۔ اسی طرح اقتصادی منصوبہ بندی بھی قومی اور ملکی نظم بندی اور ارتقا کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہے، مگر بعض اشخاص وافراد کو خداداد صلاحیتیں مبدأ فیاض سے عطا ہوتی ہیں۔
احمد حسن زیات نے کہا ہے: عربی ادب کے ارکانِ اربع چار کتابیں ہیں: (۱)اِبْنِ قُتَیْبَہ کی ’’اَدَبُ الْکَاتِبْ‘‘، (۲) جاحظ کی ’’اَلْبَیَان وَالتَّبْیِیْن‘‘، (۳) اَبُوالْعَباس اَلْمُبَرَّدْ کی ’’اَلْکَامِلْ فِی اللُّغَۃِ وَالْاَدَبْ‘‘، (۴) ابوعلی القالی کی ’’اَلْاَمَالِیْ‘‘۔
امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا: ’’ہم نے حکمرانی بھی کی ہے اور ہم محکوم بھی رہے ہیں‘‘، اَبُوالْعَباس اَلْمُبَرَّدْ کہتے ہیں: ’’یہ بہت جامع کلمہ ہے اوراس کا مقصد یہ ہے: ہم حکمران بنے تو ہمیں پتا چلا کہ حاکم کے لیے کون سی باتیں مفید ہیں اور ہم محکوم بھی رہے تو ہمیں پتا چلا کہ رعایا کے حق میں کون سی باتیں مفید ہیں‘‘۔ آپ کے فرمان کا جوہر یہ ہے کہ تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے، نظریات جب عمل کے قالب میں ڈھلتے ہیں، تو اُن کی خوبیوں اور خامیوں کا پتا چلتا ہے، اُس کے نتیجے میں انسان کے اندر اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر حالات سے مطابقت کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ حقائق انسان کی آنکھیں کھول دیتے ہیں، بشرطیکہ کوئی صاحبِ نظر ہو، ورنہ احمد رضا قادری نے کہا ہے: ’’دیدۂ کور کو کیا آئے نظر، کیا دیکھے‘‘، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خُوب ہے، لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا
یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمائی ہے: ’’کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ اُن کے لیے ایسے دل ہوتے جن کے ذریعے وہ (اشیاء کی حقیقتوں کو) سمجھ لیتے یا ایسے کان ہوتے، جن سے وہ (حق کی آواز کو) سن لیتے، کیونکہ درحقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں (دھڑکتے) ہیں، (الحج: 46)‘‘، ’’اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو اس کی زندگی یقینا بہت تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا، حالانکہ میں (دنیا میں داناو) بینا تھا، اللہ فرمائے گا: اسی طرح تیرے پاس میری نشانیاں آئی تھیں تو تونے ان کو نظرانداز کردیا تھا اور اسی طرح آج تجھے بھی نظرانداز کردیا جائے گا، (طہٰ: 124-126)‘‘۔
اردو کا محاورہ ہے: ’’پُوت کے پائوں پالنے ہی میں پہچانے جاتے ہیں‘‘، یعنی کسی کی شخصیت کا جوہر اور حُسن وقُبح شروع ہی میں نمایاں ہوجاتے ہیں، نیک بختی اور بدبختی کا حال بچپن ہی میں حرکات وسکنات اور رجحانات سے عیاں ہونے لگتا ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے: بنو امیہ کے ایک خلیفہ عبدالملک بن مروان لڑکپن میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، ایک قیافہ شناس کی اُن پر نظر پڑی تو بلاکر کہا: ’’اگر میں تمہیں بشارت دوں کہ تم بادشاہ بنو گے، تو تم مجھے کیا انعام دو گے‘‘، عبدالملک بن مروان نے جواب دیا: ’’اگر میں آپ کو انعام دوں تو کیا مجھے وقت سے پہلے بادشاہت مل جائے گی‘‘، اس نے کہا: ’’نہیں‘‘، اس نے پھر پوچھا: ’’اگر میں آپ کو انعام نہ دوں تو کیا مجھے بادشاہت ملنے کا وقت ٹَل جائے گا‘‘، اس نے کہا: ’’نہیں‘‘، تو عبدالملک نے کہا: ’’پھر میں آپ کو انعام کس لیے دوں‘‘۔
رسول اللہؐ کو بھی اللہ تعالیٰ نے مردم شناسی اور انسانی جوہر کو پہچاننے اور انسان کے باطن میں جھانکنے اور اس کی صلاحیتوں کے ادراک کا ملکہ عطا فرمایا تھا، چنانچہ آپؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کی مثال کانوںکی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیںہوتی ہیں، سو ان میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں اعلیٰ انسانی جوہر کا حامل تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد جب وہ فقیہ بن گئے تو ان کی وہ فضیلت قائم رہی، (مسلم)‘‘۔ علامہ علی القاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: انسانیت کے حوالے سے ’’معدِن‘‘ سے مراد انسانی جبلّتوں کا جوہر اور خیر کی وہ فطری استعداد ہے، جسے مسلسل تربیت وریاضت سے نکھارا جاسکتا ہے، جیسے سونا، چاندی، ہیرے اور جواہرات زمین میں چھپے ہوتے ہیں، پھر انہیں نکالا جاتا ہے، ان کی تراش خراش کی جاتی ہے، ان کے اندر سے کھوٹ کو نکالا جاتا ہے، انہیں پالش کر کے چمکایا جاتا ہے، سو وہی پتھر جوکبھی پائوں کی ٹھوکر میں تھا، بادشاہوں کے تاج میں سجایا جاتا ہے اور گلے کا ہار بنایا جاتا ہے۔ مگر جوہر ِ قابل کو تلاش کرنے اور نکھارنے کے لیے جوہری ہونا چاہیے، فارسی کی ضرب المثل ہے: ’’قدرِ زر زرگر شناسد، قدرِ جوہر جوہری‘‘ یعنی سونے کی قدر سنار جانتا ہے اور ہیرے کی قدر جوہری جانتا ہے۔ ہیرے کو تاج کی زینت بننے تک کئی مراحل سے گزارا جاتا ہے، شاعر نے کہا ہے:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سوبار جب عقیق کٹا، تب نگیں ہوا
پس سیّد المرسلین رحمۃ للعالمینؐ انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیے ہوئے جوہرِ کمال (Talent) کے شناور تھے اور وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ملکہ اور علم سے جان لیتے تھے کہ کون سا انسانی ہیرا کس شعبے میں کمال رکھتا ہے اور اس کی استعداد کو کیسے نکھارا جاسکتا ہے، چنانچہ نگاہِ نبوت نے سیدنا عمر بن خطابؓ کی شخصیت کے جوہرِ کمال کو پہچان لیا تھا، اسی لیے آپؐ نے اسلام کی عزت وشوکت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ’’اے اللہ! تو عمر بن خطابؓ سے اسلام کو غلبہ عطا فرما، (سنن ابن ماجہ)‘‘ اور ایسا ہی ہوا، عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں: ’’ہم (اپنی کمزوری کے باعث) کعبہ کے پاس نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ عمر بن خطابؓ نے اسلام قبول کیا، پس جب وہ اسلام لے آئے تو انہوں نے قریش سے مقابلہ کیا اور پھر انہوں نے کعبہ کے پاس نماز پڑھی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی، (سیرت ابن ہشام)‘‘۔ سیدنا علیؓ سے روایت ہے: عمر بن خطاب کے سوا میں کسی کو نہیں جانتا کہ جس نے عَلانیہ ہجرت کی ہو۔ پس جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا، تو تلوار لٹکائی، کمان باندھی، تیر ہاتھ میں لیے اور کعبہ میں آئے، اُس وقت اشرافِ قریش صحن کعبہ میں موجود تھے، انہوں نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھی، پھر ایک ایک کر کے قریش کے پاس گئے اور کہا: تمہارے چہرے رسوا ہوجائیں، تم میں سے جو چاہتا ہوکہ اس کی ماں اُسے روئے اور اس کے بچے یتیم ہوجائیں اور اس کی بیوی بیوہ ہوجائے، تو حدودِ حرم سے باہر میرا سامنا کرلے، لیکن کوئی بھی ان کا راستہ روکنے نہیں آیا، (تاریخ الخلفاء، بحوالہ ابن عساکر)۔ بعض نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن فضائل میں ضعیف احادیث معتبر ہوتی ہیں۔
خوارج کا ایک لیڈر واصل بن عطا عجیب وغریب خصلتوں کا حامل تھا، وہ زبان میں لکنت کی وجہ سے ’’ر‘‘ کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا وہ اپنے کلام میں ’’ر‘‘ کو لانے سے اجتناب کرتا تھا اوراس کی قادرالکلامی اور زبان وبیان پر عبور کی وجہ سے کسی کو اس کے اس عیب کا پتا بھی نہیں چلتا تھا، چنانچہ وہ اپنے کلام میں ’’بُرّ (گندم)‘‘ کی جگہ ’’قُمح‘‘ استعمال کرتا، ’’شعر‘‘ کی جگہ ’’بیت‘‘ کا لفظ لے آتا اور’’مَطَر (بارش)‘‘ کی جگہ ’’غَیْث‘‘ کا لفظ استعمال کرتا، اسی طرح وہ ’’فِرَاش‘‘ اور ’’مَرقَد (قبر کو بھی کہتے ہیں اور سونے کی جگہ کوبھی کہتے ہیں)‘‘ کی جگہ ’’مَضْجَعْ (ٹیک لگانے کی جگہ)‘‘ کہتا، ’’لَاَرْسَلْتُ اِلَیْہ(میں نے اس کی طرف بھیجا)‘‘ کی جگہ ’’لَبَعثْتُ اِلَیْہِ‘‘ کہتا۔ ایک شخص کی کنیت ’’اِبْنِ بُرْد‘‘ تھی، نام ’’بشار‘‘تھا اور وہ ضریر (اندھا) تھا، ان تینوں میں ’’ر‘‘ آتا ہے، لہٰذا وہ ’’ر‘‘ سے بچنے کے لیے اُسے ’’ھٰذَا الاَعْمٰی‘‘ (یہ اندھا) کہتا تھا، (الکامل للمبرّد)۔
یہ کلمات تمہید کے طور پر لکھے ہیں، کہنے کا مطلب یہ ہے: ’’ہمارے وزیرِ اعظم عمران خان کے لیے 2011 سے اُن کی سیاست کا بندوبست کیا گیا، قابلِ انتخاب گھوڑوں کو لاکر اُن کے اصطبل میں باندھ دیا گیا، میڈیا کو اُن کے لیے اطاعت گزار بنادیا گیا، کیمرا ٹیکنیک سے اُن کے جلسوں کے اجتماعات کو ہزاروں اور لاکھوں بناکر دکھایا گیا، اُن کے مخالفین کی کردار کشی اور الزامات واتہامات کے لیے زبان وقلم کے شہسوار منتخب کر کے اُن کی خدمات بلامعاوضہ انہیں فراہم کردی گئیں، ’’اشارے‘‘ کی بات تو کی گئی، لیکن اشارہ کرنے والے کا نام لینا ممنوع قرار پایا، سو اِس کے لیے خلائی مخلوق، نادیدہ قوتیں، محکمۂ زراعت اور نجانے کیا کیا اصطلاحات وضع کی گئیں تاکہ بات بھی بن جائے اور جان بھی سلامت رہے، اس کے باوجود بعض کو ابتلا سے گزرنا پڑا۔
الغرض مقامِ افتخار پر فائز ہونے اور تاریخ میں نام پانے کے لیے ذہنی، فکری اور عملی جدوجہد درکار ہوتی ہے، بیساکھیوں کے بجائے اپنی قامت پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے، اس کے لیے تدبّر وتفکُّرکی طویل ریاضت ومجاہدے سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے نتیجے میں قیادت کے اندرتدبُّر، تَحَمُّل، حکمت وفراست، دانش وبینش، متضاد اشخاص اور متضاد آراء کے درمیان مطابقت کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ کبھی خیرِ کامل، کبھی خیرِ کثیر اور کبھی شرِّقلیل کے ساتھ بھی گزارا کرنا پڑتا ہے، ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ سے کام لینا پڑتا ہے، قوم وملک کے عظیم تر مفاد میں نہ چاہنے کے باوجود دوسروں کے ساتھ مل بیٹھنا پڑتا ہے۔ عُجبِ نفس، کِبر وغرور، نخوَت اور بے جا تعلّی سے گریز کرنا پڑتا ہے، نفس کی اَنا کے گھوڑے کو مصلحت کی لگام دینا پڑتی ہے، پِتّا مارنا پڑتا ہے، دوسروں کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن شطرنج کی ساری بساط تیار ملنے کی وجہ سے ہمارے وزیرِ اعظم نہ ان تجربات سے گزرے اور نہ ان شخصی خوبیوں سے اُن کی شخصیت مزیّن ہوئی، بس اَنا پرستی اور ’’ہمچو مادیگرے نیست‘‘ اُن کا موٹو قرار پایا، خواجہ محمد وزیر نے کہا ہے:
اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو، یوسفِ بے کارواں ہو کر
مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے، معرکہ آرا کتابیں پڑھنی چاہییں، ماضی کے حکمرانوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا معروضی جائزہ لینا چاہیے، موضوعی سوچ سے گریز کر کے اور ذہنی تعصّبات سے آزاد ہوکر حقائق کا ادراک کرنا چاہیے، اسی سے شخصیت کو نکھار ملتا ہے۔