نوازشریف عام انتخابات کے بعد ہی واپسی کا فیصلہ کرینگے

303

کراچی (تجزیاتی رپورٹ: محمد انور) برطانیہ میں مبینہ طور پر اپنے علاج کے لیے مقیم سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے تحریک انصاف کی حکومت سنجیدہ نظر آرہی ہے۔ ’’جسارت‘‘ کے اس تجزیہ نگار (محمد انور) کا ماننا ہے کہ حکومت پاکستان کے اٹارنی جنرل کی طرف میاں نوازشریف کے ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کو لکھ کر ان سے جواب طلب کر لیا ہے کہ یہ بتایا جائے کہ پاکستان کے ڈاکٹر کب آپ سے ملاقات کرکے میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لے سکتے ہیں، اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نواز شریف کو جلد یا بدیر وطن واپس لانے کے لیے اب سنجیدہ ہوچکی ہے۔ یادرہے کہ احتساب عدالت سے سزا پانے والے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اپنے مقدمات کی سماعت کے دوران بغرض علاج نومبر 2019ء میں برطانیہ چلے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی درخواست پر 8 ہفتے کے لیے سزا معطل کی تھی تاہم میاں نوازشریف ایک سال گزرنے کے باوجود واپس وطن نہیں آئے۔ جس پر وفاقی حکومت نے ان کی واپسی کے لیے اقدامات شروع کیے۔تاہم نوازشریف کے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم کی صحت ابھی اس قابل نہیں ہے کہ انہیں سفر کی اجازت دی جائے۔ برطانوی ڈاکٹر کے اس مؤقف کے بعد حکومت نے نواز شریف کے ایک فیکٹری کے دورے کی وڈیو پر ان کی وطن واپسی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹروں کی ٹیم از خود لندن جا کر نواز شریف کی تمام میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لے گی اور ان کی صحت بہتر ہونے کی صورت میں واپس لانے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ خیال رہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز کی جانب سے نواز شریف کے جاری علاج کی رپورٹ مانگی گئی تھی، سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی میڈیکل ٹیم نے جو رپورٹ پاکستانی حکام کو بھیجی ہے وہ نامکمل ہے اس لیے پاکستانی ڈاکٹرز اب خود لندن پہنچ کر ان کی تمام رپورٹ کا جائزہ لیں گے لیکن اس مقصد کے لیے بھی نواز شریف کے معالج پاکستانی ڈاکٹرز کو وقت نہیں دے پا رہے ہیں جس کی وجہ سے نواز شریف کی واپسی کا تاحال فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ یہ بھی یاد رہے کہ مسلم لیگ نواز کے بعض رہنماؤں نے نواز شریف کی واپسی کے لیے رواں سال جنوری کی تاریخ دی تھی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف آئندہ عام انتخابات کے بعد ہی ملک کے حالات دیکھ کر وطن واپسی کا فیصلہ کریں گے اس وقت تک سارے بیانات اور بیماری کے دعوے محض سیاسی چالیں ہیں۔