تھوک اور پھونک کے چکر میں اُلجھا ہوا بھارت

699

ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بھارت کا معاشرہ مجموعی طور پر غیر فرقہ وارانہ اور وسیع القلبی کا چلتا پھرتا اشتہار ہو جس کا ثبوت تاریخ کے ہر دور میں اقلیتوں کے خلاف پھوٹ پڑنے والے فسادات ہیں جن میں اکثر مسلمان اقلیت ہی نشانہ بنتی رہی ہے مگر ہر متنوع معاشرے کی طرح یہاں جیو اور جینے دو کا اصول کسی حد تک کارفرما رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت اپنے تنوع کے باوجود ایک سخت گیر ہندوتوا مائنڈ سیٹ کا اسیر اور غلام بنتا جا رہا ہے۔ جوں جوں یہ ذہنیت فیصلہ سازی پر حاومی اور سیاسی میدان میں طاقتور ہوتی جا رہی ہے اسی انداز سے اقلیتوں کے لیے سانس لینے کی آزادی کا دائرہ سمٹتا چلا جا رہا ہے۔ عوامی سطح پر نفرت کا ایک لاوہ پھٹ پڑا ہے جو زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں پیش آنے والے چند واقعات نے معاملہ کی سنگینی کو اور گہرا کیا۔ بھارت کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر کی چتا پر بالی ووڈ کے اسٹار شاہ رخ خان نے کچھ دعائیہ کلمات پڑھنے کے بعد پھونکا تو سوشل میڈیا پر یہ سوال اُٹھا کہ شاہ رخ خان نے چتا پر پھونکا یا تھوکا؟۔ شاہ رخ خان کی ایک پھونک سے بات کا بتنگڑ بن گیا اور یوں اس پر کئی دن مختلف زاویوں سے بحث ہوتی رہی۔ کچھ لوگوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اگر شاہ رخ خان نے لاش پر پھونکا بھی ہے تو انہیں کس نے یہ حق دیا ہے۔ شاہ رخ خان نے اپنائیت اور وفاداری کے اظہار کے لیے محض دومنٹ کی خاموشی کے بجائے پوری مذہبی رسم وریت نبھانے کا کام کیا تھا مگر یہ کام ان کے گلے ہی پڑگیا اور ہندو انتہا پسند ان کا گریبان پھاڑنے لگ گئے۔ یہاں تک کہ کئی ہندو دوستوں کو میدان میں آکر شاہ رخ خان کی صفائی اور وکالت پیش کرنا پڑی۔ یوں مسلمانوں سے نفرت اب اس رخ پر جارہی ہے کہ ان کی پھونک میں بھی تھوک کا پہلو دریافت کیا جانے لگا۔ مسلمان اپنی وفاداری کے جس قدر مظاہرے کریں کرتب اور تماشے دکھائیں ہندوتوا مائنڈ سیٹ ان کی جان چھوڑتا نظر نہیں آتا۔
تھوک اور پھونک کا یہ تنازع ابھی جاری ہی تھا کہ کرناٹک کے سرکاری اسکول کا واقعہ ہوگیا۔ جس میں طالبات کو حجاب کرنے سے روکنے کی ایک مہم جو پہلے ہی چل رہی تھی ایک مخصوص واقعے سے عالمگیر توجہ حاصل کر گیا تعلیمی اداروں میں حجاب کو متنازع بنانے کا کام بھی ہندوتوا مائنڈ سیٹ سے لیا گیا۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں کے حامی طلبہ کو حجاب پر پابندی کے کام پر لگا دیا گیا جس سے ایک نان ایشو کو ایشو بنا دیا گیا۔ حجاب جو ہندوستان کے مسلمان سماج میں معمول کا لباس اور لباس کا حصہ ہے اچانک تنازعات کی زد میں آگیا۔ مسلمان خواتین کو اپنے لباس کے دفاع کے کام میں اُلجھا دیا گیا۔ یہاں تک کہ طالبات کو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ بھارت کی عدالتیں اب میرٹ پر کم ہی فیصلے دیتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت کی عدلیہ بھی ہندوتوا مائنڈ سیٹ سے یا تو متاثر ہو چکی ہے یا اس کے دبائو میں فیصلے سنانے کی راہ پر چل پڑی ہے۔
نو برس پہلے بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے کشمیری حریت پسند افضل گورو کو عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کی خاطر سزا سناکر عوامی دبائو اور عوام کو خوش کرنے کا ایک ’’نظریہ ضرورت‘‘ تراشا تھا اب بھارت کی عدلیہ اسی نظریہ ضرورت کو مستقل نظریہ بناتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حجاب کے مسئلے میں عدالتی گومگوں کی پالیسی ابھی تک جاری ہے۔ اس دوران کرناٹک کے کالج میں ہندو بلوائی طلبہ کے ہاتھوں ستائی ہوئی ایک دھان پان سی لڑکی مسکان جرأت اور بہادری کا ایک استعارہ بن کر سامنے آئی۔ طالبہ نے جب اپنا موٹر سائیکل پارکنگ میں کھڑا کیا تو پہلے سے موجود صحافیوں کا کیمرہ ان پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا کیونکہ کیمرہ مین کو اندازہ تھا کہ مسکان کو جس راہ پر پیدل چل کر جانا ہے وہاں نارنجی پٹیاں گلے میں ڈالے انتہا پسندوں کا ہجوم جے شری رام کے نعرے لگاتا ہوا ان کا منتظر ہے۔ مسکان خان جو گیٹ پر اچھی خاصی مڈبھیڑ کے بعد کیمپس کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی تھی حالات کا سامنا کرنے کو تیار تھی موٹر سائیکل سے اُترتے ہی وہ چیتے کی آنکھ سے بلوائیوں کی طرف دیکھ کر اسی چال سے آگے بڑھتی ہیں تو ہجوم ان کا پیچھا کرتا ہے۔ ایک تنہا لڑی درجنوں بلوائیوں اور آمادہ ٔ فساد ہجوم کے آگے اعتماد کے ساتھ قدم رکھ رہی ہے مگر ہجوم ہے کہ اس کا پیچھا چھوڑنے پر آمادہ نہیں یوں لگ رہا تھا کہ ہجوم آج مسکان کا برقع اتروا کر اپنی فتح کا جشن منانا چاہتا ہے مگر مسکان اپنی طاقت کا بلب روشن کرنے کے لیے روایتی پاور ہائوس سے مدد مانگ کر جے شری رام کے تعاقب کرتے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگاتی ہے۔ جب ہجوم اس کا پیچھا کرنے سے باز نہیں آتا تو مسکان بلوائیوں کی طرف پیچھے مڑ کر زور زور سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتی ہے پھر وہ اپنی مقامی زبان میں کیمرہ مین کو ہجوم کے مطالبے سے آگاہ کرتی ہے کہ یہ لوگ اس سے برقع اتار کر کیمپس میں داخل ہونے کا کہہ رہے تھے۔ یوں یہ وہ لمحات تھے جب مسکان دنیا بھر میں شخصی آزادیوں اور اسلامی تہذیب کی ایک علامت بن کر اُبھر رہی تھی۔ مزاحمت کا ایک استعارہ بن رہی تھی۔ خوف کو جھٹکنے کے ایک لمحے نے مسکان کو مزاحمت کی ایک مثال بنا دیا تھا اور اس کے پیچھے بھاگنے اور گھیرائو کرنے والا نفرت کا سودا گر ہجوم دنیا بھر میں ذلت ورسوائی کی علامت بن کر رہ گیا تھا۔ مسکان کے ایک فیصلے نے بھارت میں مزاحمت کی ایک طرح ڈال دی تھی۔