عدالت عظمیٰ میں تا حیات نا اہلی کے خلاف درخواست

557

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئینی دفعہ باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون کی جانب سے دائر کی گئی جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ تاحیات نا اہلی کے اصول کا اطلاق صرف انتخابی تنازعات میں استعمال کیا جائے۔ دفعہ 3/184 کے اختیار کے تحت عدالت عظمیٰ بطور ٹرائل کورٹ امور انجام نہیں دے سکتی۔ دفعہ 184 کی شق تین کے تحت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں ملتا، جو انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ اپیل کے حق کے بغیر تاحیات نا اہلی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اور متعلقہ حلقہ کے ووٹرز کی بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے عدالتی فیصلوں میں دفعہ 62 ون ایف کے اطلاق کے پیرا میٹرز طے کئے دفعہ 62 ون ایف کے تحت جو الیکشن چیلنج ہو صرف اس کو کالعدم کیا جائے۔ اس درخواست کا فیصلہ تو ظاہر ہے عدالت عظمیٰ ہی کرے گی تاہم اس ضمن میں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اجتماعیت کا علم بردار ایک باوقار ادارہ ہے جسے کسی ایک فرد، خاندان یا سیاسی جماعت کے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جانا کسی طرح بھی مناسب نہیں خاص طور پر ایک ایسا خاندان جس کے بارے میں پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کا لاڈلا ہے اور اس کے لیے ہماری عدلیہ کے انصاف کے پیمانے عام آدمی سے بہت مختلف ہیں۔ عام آدمی کے مقدمات کی سماعت کی باری جن عدالتوں میں برسوں نہیں آتی وہی عدالتیں اس خاندان کی خاطر ہفتہ وار رخصت کے روز بھی فوری کارروائی کرتی ہیں، سزا یافتہ باپ کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت پچاس روپے کے بھائی کے ضمانت نامے پر دے دی جاتی ہے جب کہ سزا یافتہ بیٹی کو باپ کی عیادت کے لیے جیل سے رہائی ملتی ہے اور باپ کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد بھی بیٹی اسی عیادت کی بنیاد پر ملنے والی ضمانت پر نہ صرف آزادانہ زندگی گزار رہی ہے، شادیوں کی تقریبات میں بلامبالغہ کروڑوں روپے لٹاتی نظر آتی ہے بلکہ کھلے بندوں ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف زبان درازی بھی کرتی پائی جاتی ہے۔ کیا اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اس طرح کے انصاف کی کوئی دوسری مثال پیش کی جا سکتی ہے۔