ارباب اختیار بے حس ،مزدوربستیاں سہولتوں سے محروم،کے الیکٹرک کی اوربلنگ عروج پر ہے،:رپورٹ

203

کراچی(رپورٹ: قاضی سراج)مزدور بستیوں میں بجلی، گیس اورپانی نایاب ہیں‘ صفائی ستھرائی کا انتظام ناقص ہے‘ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ ان حالات میں مزدور کس طرح بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے کیونکہ جب صبح وہ کام پر جاتا ہے تو پہلے ہی تھکا ہوا ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سائٹ لیبر فورم اور ہیلکس فارما ایمپلائز یونین کے جنرل سیکرٹری بخت زمین، ڈاڈیکس اٹرنٹ ورکرز یونین (CBA) کے جنرل سیکرٹری علی محمد جمالی اورمزدور رہنما اسلم خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’مزدور بستیوں میں محنت کش کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟‘‘ بخت زمین نے کہا کہ بستیوں میں 10 سے 12 گھنٹے روزانہ بجلی کی لوڈشیڈنگ رہتی ہے‘ اس کے باوجود بجلی کے بل ہزاروں میں آتے ہیں جبکہ تنخواہ 19 ہزار روپے ہے‘ گیس کی لوڈشیڈنگ بجلی سے بھی زیادہ ہے‘ 20 سے 22 گھنٹے گیس کی لوڈشیڈنگ رہتی ہے اور یہ دونوں محکمے وفاقی حکومت کے پاس ہیں جس میں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور جے ڈی اے شامل ہیں‘ پانی پہلے3 سے 4 دن بعد آتا تھا‘ اب 12 سے 15 دن بعد پانی ملتا ہے جبکہ اورنگی ٹائون، بنارس اور سائٹ کی مزدور بستیوں میں پانی حب ڈیم سے آتا ہے اور حب ڈیم میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن واٹربورڈ جس کو جب سے سندھ حکومت نے اپنے تحویل میں لیا ہے کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے اور سائٹ کی مزدور بستیوں کا پانی ٹینکر مافیا کو بیچا جا رہا ہے اور یہ سب سندھ حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس کرپشن کو روکے ‘ اس کے علاوہ ان غریب مزدور بستیوں میں منشیات کھلے عام بکتی ہے جو پولیس اور رینجر کی موجودگی کے باوجود کسی کو نظر نہیں آتی۔ باقی شہر کی طرح مزدور بستیوں میں بھی کچرے کے ڈھیر جگہ جگہ نظر آئیں گے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی خراب ہے اور پرائیویٹ اسکولوں میں میٹرک پاس ٹیچرز بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ مزدورں کی بستیوں میں تعلیم کا معیار کیا ہے‘ بدقسمتی سے سندھ کے وزیر محنت و تعلیم سید غنی ہی ہیں جو دونوں محکموں کو ٹائم نہیں دیتے‘ دوسری طرف مہنگائی نے مزدورں کا جینا حرام کردیا ہے‘ مزدوروں کی بستیوں میں جتنے بھی منصوبوں پر کام ہوتا ہے ‘80 فیصد فنڈ بیوروکریٹس کی تجوریوں کی نظر ہوجاتا ہے‘ مزدور بستیوں سے منتخب ہونے والے لوگ بھی ان میں سے نہیں ہوتے وہ تاجر اور صنعت کار ہوتے ہیں بلکہ لیبر سیٹ پر بھی مزدور نہیں بلکہ تاجر کو لایا جاتا ہے۔ علی محمد جمالی نے کہا کہ حب ڈیم سے میٹھے پانی کی بڑی لائن منگھوپیر سے شہر کی طرف جاتی ہے۔ اس کے باوجود مزدوروں کے بعض گوٹھوں میں پانی کی قلت موجود ہے اور 40 سال سے منگھوپیر روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے‘ انتہائی خستہ حالت کی وجہ سے ایمرجنسی کی صورت میں رکشہ، ٹیکسی بھی مریض کو لے جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ مجبوراً بھاری کرایہ دے کر لے جانا پڑتا ہے جبکہ منگھوپیر روڈ پر سیکڑوں ماربل فیکٹریوں اور چند بڑی فیکٹریاں پیپلز اسٹیل، آئل ریفائنری، ڈاڈیکس، کرم سرامکس اور ہمدرد یونیورسٹی واقع ہے۔ اس کے علاوہ جاویدان سیمنٹ فیکٹری بند ہوچکی ہے اس کی جگہ نیوناظم آباد سوسائٹی تعمیر ہو رہی ہے جو انتہائی مہنگی اور مزدوروں کی پہنچ سے دور ہے‘ منگھوپیر میں کے الیکٹرک کا ظلم انتہا پر ہے‘ مزدوروں کی آمدنی سے زیادہ بجلی کا بل بھیج رہا ہے وہ مزدور جو کم بجلی استعمال کرتے ہیں‘ کم یونٹ والوں پر کنڈا بل بھیج رہا ہے کوئی پرسانِ حال نہیں‘ منگھوپیر میں گورنمنٹ اسپتال نہیں ہے‘ مزدور سہولت نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ کلینک اور چھوٹے اسپتالوں میں بھاری رقم خرچ کرتے ہیں‘ یہاں پولیس منشیات کے اڈے چلا رہی ہے‘ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسلم خان نے کہا کہ آج بھی مزدور بنیادی حقوق اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ‘ ان کی بستیوں کے مسائل میں پینے کا صاف پانی سرفہرست ہے‘ اس پر سیاسی جماعتیں سیاست خوب چمکاتی ہیں لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثرکردار ادا نہیں کرتیں‘ بے چارے مزدور اپنا پیٹ کاٹ کر پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں‘ اگر مزدور بستیوں میں قلت آب کا مسئلہ حل ہو جائے تو مزدوروں کی مشکلات میں کمی آسکتی ہے لیکن ارباب اختیار کی بے حسی مزدور بستیوں کو بنیادی سہولیات کا شکار بنانے سے باز نہیں آرہی ہے‘ ارباب اختیار کی بے حسی کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ارباب اختیار محنت کشوں اور مزدوروں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں حالانکہ کہ محنت کش و مزدور بہت بڑی طاقت ہیں‘ ان کی شبانہ روز محنت سے ہی ملکی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔
جسارت گفتگو