عمران خان نشانے پر

412

وفاقی وزیر منصوبہ بندی پی ٹی آئی کے اوپننگ بیٹسمین اسد عمر نے کہا ہے کہ نواز شریف کو باہر بھیجنا 100 فی صد عمران خان کا فیصلہ تھا۔ اس فیصلے پر اجلاس کے شرکا کی رائے تقسیم تھی۔ میں اس میٹنگ میں شریک تھا۔ یہ مسئلہ پہلے کابینہ میں بھی زیربحث آیا، بعد میں وزیراعظم نے کہا کہ جن رپورٹوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا وہ جھوٹی ثابت ہوئیں۔ اسد عمر کی یہ گفتگو پی ٹی آئی کی صفوں میں بڑے بھونچال کا پتا دے رہی ہے۔ جس کپتان کے بارے میں یہ لوگ ایک لفظ سننے کو تیار نہیں تھے اب اپنے دشمن نمبر ایک کے ملک سے جانے کا سارا ملبہ اپنے ہی کپتان پر ڈال کر اسے رن آئوٹ کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ تو ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اسد عمر کوئی اپوزیشن لیڈر ہیں اور وزیراعظم پر الزام تراشی کررہے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی ایک پارٹی ہوتی تو اس کے وزیر منصوبہ بندی فیصلے کی ذمے داری قبول کرتے۔ انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ ہمارا فیصلہ تھا۔ عمران خان کے دیگر فیصلوں کے بارے میں وہ کیا کہیں گے۔ رضا باقر کو لانے کا فیصلہ کس کا تھا۔ ڈالر اونچا اڑانے کا فیصلہ کس کا تھا۔ آئی ایم ایف جانے کا فیصلہ کس کا تھا۔ بات صرف اسد عمر صاحب کی نہیں ہے جب بھی بھان متی کا کنبہ جوڑا جائے گا اس کا رویہ یہی ہوگا۔ یہ لوگ کبھی اپنے لیڈر کے ساتھ نہیں کھڑے ہوسکتے بلکہ وہ ان کا لیڈر نہیںضرورت ہوتا ہے لہٰذا جوں ہی اس کے خلاف گھیرا تنگ ہوگا یہ اسے چھوڑ جائیں گے۔ وزیراعظم سوچیں انہوں نے کون سی ٹیم جمع کی تھی یہ وہ ٹیم ہے جو ایک دو کے سوا سب دوسروں کے پاس سے آئی ہے، پھر کہیں چلی جائے گی۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اب نشانے پر ہیں۔اس پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام کے شوشے محض شوشے نہیں ان کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہے۔ اور جس طرح اپوزیشن میں تین چار افراد وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اسی طرح پی ٹی آئی میں بھی کچھ لوگ تیار ہیں۔