آئی ایم ایف سے آزادی کیسے…؟

439

ضمنی مالیاتی ترمیمی بل اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بارے میں قانون منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود ہے، ضمنی مالیاتی ترمیمی بل کے ذریعے جسے منی بجٹ کا بھی نام دیا گیا ہے، تقریباً 360 ارب روپے کے اضافے محصولات کی وصولی حکومت کے پیش نظر ہے۔ دونوں قوانین آئی ایم ایف کے حکم پر پیش کیے گئے ہیں، ان دونوں اقدامات کو رائے عامہ نے مسترد کردیا ہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ جلدازجلد منی بجٹ پارلیمان سے منظور کرالے تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کردی جائیں اور قرضوں کے معاہدے کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط کی منظوری کے لیے بات چیت مکمل ہوجائے، چونکہ حکومت ابھی تک منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک آرڈی ننس سخت عوامی تنقید کی وجہ سے منظور نہیں کراسکی ہے اس لیے آئی ایم ایف نے جنوری میں ہونے والے مذاکرات مؤخر کردیے ہیں، تمام ماہرین معاشیات سمیت قومی امور پر نظر رکھنے والے مبصرین نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے معاہدے کو ملکی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس دعوے کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض لینے کا فیصلہ کیا تھا کہ ہم زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کو ختم کرکے اپنی معیشت کو مستحکم بنائیں گے اور اس کے بعد آئی ایم ایف کے قرض سے نجات حاصل کرلیں گے۔ ابتدا میں دوست ممالک چین اور سعودی عرب سے مدد حاصل کرنے کے باوجود حکومت معاشی استحکام حاصل نہیں کرسکی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی زنجیر میں قید کیے جانے کی ذمے داری موجودہ اور سابقہ تمام حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ حزب اختلاف کی وہ جماعتیں جو اب حزب اختلاف میں ہیں اور موجودہ حکومت پر تنقید کررہی ہیں اس تباہی کی ذمے دار ہیں، اب جبکہ انہیں اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ اس لیے انہیں اس کا ازالہ کرنے کے لیے پارلیمان میں حکومت کے اقدامات کو ناکام بنانے کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، لیکن تمام بنیادی اور اہم ترین مسائل اور امور پر حزب اختلاف شور مچانے کے سواکوئی سنجیدہ قدم اٹھانے سے گریز کررہی ہے، یہی عالم وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کا ہے۔معاشی تباہی اور آئی ایم ایف کی غلامی کا ذمے دار سابق حکومتوں کی کرپشن اور بدعنوانی کو قرار دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اب بھی اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ برآمدات بڑھا کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کریں گے اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھڑائیں گے، لیکن ان کی معاشی ٹیم ایسے معاہدے کررہی ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی زیادہ تباہ کن ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف میں نہیں جائیں گے۔ لوگوں کو امید ہوئی کہ ایسی حکومت آئی ہے جو امریکا اور آئی ایم ایف کو ناں کہہ سکتی ہے، لیکن انہوں نے تو آئی ایم ایف کے حکم پر وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے ذمے دارانہ ترین مناصب پر آئی ایم ایف کے ملازمین ہی کو مقرر کردیا۔ یہ بھی کتنی حیرت انگیز مماثلت ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین ماضی میں بھی ایک دوسرے کے متبادل منصب پر رہ چکے ہیں اور اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ اب حکومت کی معاشی ٹیم کے ارکان یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ٹیکسوں کے نئے طوفان سے کوئی بربادی نہیں آئے گی، ہم معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ ملک میں ٹیکس دینے کا کلچر رواج پائے۔ نئے ٹیکس آئی ایم ایف کے کہنے پر نہیں لگائے گئے ہیں، یہ ہمارا فیصلہ ہے۔ اسٹیٹ بینک پر حکومت کا کنٹرول ختم نہیں ہوگا، وزیراعظم کا تو یہ دعویٰ ہے کہ جیسے اب بھی وہ آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں انہوں نے اسلام آباد ایوان صنعت و تجارت کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے برآمدات نہ بڑھائیں تو ہم آئی ایم ایف کی گرفت میں پھنسے رہیں گے۔ یہ بات تو درست ہے کہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیے بغیر قرض کی ادائی ممکن نہیں ہے، لیکن جب صنعت و تجارت اور زرعی اجناس کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجائے گا تو برآمدات کیسے بڑھائی جائیں گی، اشیائے تعیش کی درآمد پر پابندی کے اقدام کے بغیر زرمبادلہ کے ذخائر کو کیسے مستحکم رکھا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مقتدر اشرافیہ آئی ایم ایف اور امریکا سے آزادی چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے قرض کی معیشت سے چھٹکارا خالی خولی نعرے بازی سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکا۔ رضا باقر جیسے سیکڑوں ہزاروں پاکستانی نژاد ماہرین کی فوج تیار ہوچکی ہے جو پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر آزاد ہونے کی ہر تحریک کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس پس منظر میں ایک ایسی عوامی تحریک کی ضرورت ہے جو امریکا اور آئی ایم ایف کی غلامی کی مزاحمت کرے۔ 1988ء میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی سختی اور تباہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے ایسے ’’دہشت گرد‘‘ ملازم رکھتے ہیں جو تیسری دنیا کی معیشتوں کو تباہ کرتے ہیں، اس مقصد کے لیے وہ غریب ممالک کے حکمرانوں کو رشوت دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جو ملک جتنا زیادہ غریب ہوتا ہے اس کی حکمراں اشرافیہ اتنی ہی دولت مند ہوتی ہے۔ صرف پاکستان میں دولت اور غربت میں فرق کا موازنہ کیا جائے تو اس کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک ایک کروڑ کی گاڑیوں میں سفر کرنے والا طبقہ ایسے حالات کا ذمے دار ہے کہعام آدمی کو15سے 20 ہزار کی اجرت بھی آسانی سے نہیں مل پاتی۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور عام آدمی کی آمدنی میں کوئی تناسب ہی قائم نہیں رہ سکا ہے۔ اس صورت کے تباہ کن اثرات رونما ہوں گے۔ پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں اور ان کی قیادت بے نقاب ہوچکی ہیں، تینوں جماعتوں کی قیادت دولت کی ہوس میں مبتلا اور عالمی مالیاتی اداروں کے آگے سجدہ ریز ہے۔ امریکا اور آئی ایم ایف کی غلامی سے آزادی کی تحریک کے بغیر حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ ابھی ہمارے سامنے پڑوسی ملک سری لنکا کی مثال آگئی ہے جس نے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کا اعلان کردیا ہے۔ اگر وزیراعظم خوف زدہ نہ ہوتے تو پاکستان بھی آئی ایم ایف کے قرض سے آزاد ہوسکتا تھا۔ دنیا میں اور بھی مثالیں موجود ہیں، لیکن اس کے لیے پاکستانی نژاد آئی ایم ایف کے آلہ کاروں کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔