عالمی برادری سے وزیر اعظم کی اپیل

379

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دُنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی کا نوٹس لے انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے شدت پسندانہ نظریے کے سائے میں ہندو توا جتھے پوری آزادی اور ڈھٹائی سے اقلیتوں پر حملہ آور ہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ انتہا پسندوں کو سزا سے استثنا حاصل ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مودی حکومت خطے کے امن کے لیے حقیقی اور مستقل خطرہ ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان نے عالمی برادری کو اس سے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ ُدنیااقلیتوں پر مظالم رکوائے لیکن دنیا اس جانب توجہ دینے کے لیے بالکل تیار نہیںبلکہ اب تو دُنیا کے دوہرے معیارات اور دوغلے پیمانے کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔وزیر اعظم کا مطالبہ جائز ہے لیکن معاملہ چونکہ براہ راست پاکستان اورمسلمانوں کا ہے اس لیے پہلے کشمیریوں اور پھر بھارت کے دیگر مسلمانوں کے معاملے کا پاکستان کو خود نوٹس لینا ہو گا اور یہ نوٹس محض مطالبے زبانی جمع خرچ یا نمائشی اقدامات سے نہیں لیا جانا چاہیے بلکہ اگر عالمی برادری کو جگانا ہے تو جس طرح وزیر خارجہ رومانیہ کے ساتھ تجارت ، دفاع اور سائنس ٹیکنالوجی میں دو طرفہ تعاون کے لیے سر گرم ہیں اسی طرح کشمیر اور بھارتی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے معاملے میں بھی سر گرمی دکھانی ہو گی ۔ مضبوط لوگوں پر مشتمل وفود بھیجنے کی ضرورت ہے ۔ بھارتی مظالم کے ثبوت پیش کیے جائیں ۔ کشمیر کے معاملے پر73برس گزرنے کی وجہ سے گرد کی تہیں جمع ہو چکی ہیں اور اس میں صرف وقت یا بھارت کا ہاتھ نہیں عالمی برادری ہی کی بے حسی نہیں بلکہ اصل فریق مدعی، سست گواہ چست والا معاملہ بھی ہے ۔ پاکستان کی جانب سے وہ سر گرمی بلکہ وہ دلچسپی ہی نہیں ظاہرکی جاتی جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ اس ملک کا کشمیر سے کوئی رشتہ بھی ہے ۔ ایک زمانے تک حکمراں اور پاک فوج ہمیں کشمیر سے رشتہ کیا لا الہ اللہ کا سبق پڑھاتے رہے لیکن9/11 کیا ہوا کہ ہمارے پیمانے ہماری دفاعی حکمت عملی ، سب کچھ بدل گیا ۔ کشمیر پر فار مولے پیش کیے جانے لگے ۔ بھارتی مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر سب سے پہلے پاکستان کی پالیسی کا اعلان ہوا ۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیر اعظم بھی اور آرمی چیف بھی بار بار افغانستان،انسانی المیے کے خدشات کا اظہار کرتے رہے اور اچانک پاکستان میں انسانی المیہ سانحہ مری کی شکل میں پیش آ گیا ۔ ایک مرتبہ پھر آرمی چیف نے یہی کہا ہے کہ افغانستان میں انسانی المیے سے نمٹنے کے لیے امن اور مفاہمت ضروری ہے ۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف دونوں اس جانب بھی توجہ دیں کہ اب اس موقع پر جب لوگ مری میں مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں23جانیں چلی جانے کا سرکاری اعلان ہو چکا ہے لوگوں کا کروڑوں کا نقصان ہو چکا ۔ملکی سیاحت پر سوالیہ نشان لگ چکا اس موقع پر اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجائے پوری قوت سے مری کے متاثرین کی مدد کی جائے ۔ ایک ہفتے میں پورا نظام تبدیل کر کے رکھ دیاجائے۔ اگر نہیںکر سکتے تو راستہ چھوڑیں خدمت کا کام کرنے والے بہت ہیں۔ لوگ پیدل جا کر خدمت کر رہے ہیں اور سرکاری لوگ گاڑی میں بیٹھ کر پانچ سو کا نوٹ دکھا کر ویڈیو بنوا رہے ہیں ۔ بھارت کے مسلمانوں اور کشمیریوں کے حوصلے کامعاملہ بھی پاکستان کے حکمرانوں کی مضبوطی سے گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ جب بھی پاکستان کے حکمراں مضبوط رہے اور کشمیر پر مضبوط موقف رکھا مجاہدین کی کھل کر حمایت کی ،کشمیری مسلمانوں اور بھارتی مسلمانوںکا حوصلہ بھی بلند رہا ۔ جوں ہی پاکستانی حکمرانوں نے لیڈر بننے کی سازش میں آ کر کشمیر پر مذاکرات اور سیکنڈ اور تھرڈ آپشن پر رضا مندی ظاہر کی کشمیریوں اوربھارتی مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے لگے ، کشمیری توپھر بھی ہار نہیںمان رہے لیکن بھارتی مسلمان تو اب پاکستانی حکمرانوں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔لہٰذا وزیر اعظم اورپاکستان کے تمام مقتدر حلقے اپنے حصے کا کام پہلے کریں پھر عالمی برادری سے اپیل کریں، ورنہ یہ اپیل صدا بصحراثابت ہو گی ۔