قازقستان میں بغاوت یا روس کا قبضہ؟

493

سوویت یونین میں شامل سابق ریاستوں کا سی آئی ایس ایک کمزور کنفیڈریشن کے طور پر موجود ہے لیکن کمزرو اور بے معنٰی ہے جس کو اب صدر ولادیمیر پیوٹن دوبارہ توانا بنانے کی کو شش میں ہیں اور برسوں سے ان کی نظر اسلامی ریاستوں پر ہے۔ پیوٹن کی نظر اور طاقت ہمیشہ اس کے خلاف رہی ہے جس نے روس کے غلبے میں یو ایس ایس آر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔
عالمی اخبارات میں شور تو اس بات کا بپا تھا روسی افواج بہت جلد یوکرین پر قبضہ کر لے گی لیکن اب یہ اطلاعات آرہی ہیں روسی افواج قازقستان پر قابض ہوگئی ہیں۔ درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں امن و مان کی بحالی کے لیے صدر قاسم جومارت توکایف کی درخواست پر روسی فوجی دستے پہنچ چکے ہیں۔ یہ وہی کھیل ہے جس طرح روس نے افغان حکومت کی درخواست پر اپنی افواج افغانستان پر قبضے کے لیے پہنچا دی تھیں۔ قازقستان کے صدر نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں کے پیچھے غیر ملکی تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں لیکن اب تک وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ قازقستان کی وزارت داخلہ کے مطابق مائع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمتوں میں اضافے کے بعد شروع ہونے والے حکومت مخالف احتجاج میں سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں دو دن قبل تک 26 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں جن کو سرکاری طور پر ’مسلح مجرم‘ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ تین ہزار سے زیادہ کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان جھڑپوں میں سیکورٹی فورسز کے 18 اہلکار ہلاک اور 748 زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی ہلاک کی تعداد بہت کم بتائی جارہی ہے۔
دوسری جانب 1991ء کی طرح اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے قازقستان کی حکومت اور مظاہرین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں۔ قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف بار بار سرکاری ٹی وی پر خطاب کے دوران روس کی سربراہی میں بنائے جانے والے اتحاد سے مدد کی درخواست کر رہے ہیں جس میں روس کے علاوہ قازقستان، بیلاروس، تاجکستان اور آرمینیا شامل ہیں۔ اس کے بعد ’سی ایس ٹی او‘ نامی اتحاد کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ قازقستان کی درخواست پر فوجی دستے بھجوائے جا رہے ہیں جو اب وہاں پہنچ چکے ہیں۔ لیکن قازقستان میں ساری کارروائی روسی افواج کر رہی ہے۔ سی ایس ٹی او اتحاد کی جانب سے بھیجے جانے والے فوجی دستوں کی تعداد تقریباً 2500 بتائی جا رہی ہے اور اتحاد کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ دستے امن قائم کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں جو صرف ریاستی اور عسکری عمارتوں کی حفاظت کریں گے۔ روسی خبر رساں ادارے آر آئی اے کے مطابق یہ دستے ہفتوں تک ملک میں قیام کر سکتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ روسی دستوں کی قازقستان آمد پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
ملک میں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب تیل کے بھنڈار سے مالا مال ملک نے مائع پٹرولیم گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے صارفین کو مہنگا ایندھن خریدنا پڑ رہا ہے۔ قازقستان میں بہت سے افراد اپنی گاڑیوں میں ایندھن کے لیے مائع پٹرولیم گیس کا استعمال کرتے ہیں۔ ان مظاہروں کا آغاز دو جنوری 2022ء سے شروع ہوا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان مظاہروں
میں شدت آتی گئی اور صرف دو دنوں میں ملک کے بیش تر بڑے شہروں میں مظاہرین کے بڑے بڑے ہجوم پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ کرتے دکھائی دینے لگے۔ جس کی وجہ سے 4جنوری تک قازقستان کے بیش تر حصوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی لیکن اس سب کے باوجود بھی ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر اپنے مظاہرے اور احتجاج جاری رکھے۔ قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے حکومت پر بدامنی کی اجازت دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے برطرف کر دیا اور تیل کی قیمتوں کو کم قیمت پر لانے کا بھی اعلان کیا تاکہ ’ملک میں امن و امان اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے‘۔ لیکن اس کے باوجود بد امنی بڑھتی گئی۔ مظاہرین نے میئر الماتی کے دفتر پر دھاوا بول دیا اور اسے آگ لگا دی۔ یہ مظاہرے اس وقت مزید پرتشدد ہو گئے جب پولیس نے قازقستان کے مرکزی شہری اور سابق دارالحکومت الماتی میں مظاہرین کے ایک بڑے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور اسٹن گرنیڈز کا استعمال کیا۔ اے ایف پی کے مطابق مظاہروں میں قریب 1000 لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے جبکہ اسپتالوں میں 400 زیر علاج ہیں اور 62 کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ قازقستان کے محکمہ داخلہ کے مطابق 3000 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائی گئی ہے۔
قازقستان 1991 میں سویت یونین کے خاتمے کے دوران آزاد ہوا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قازقستان سمیت چھے اسلامی ممالک پر روس کے قبضے کے بعد ہی USSR کا قیام ممکن ہو سکا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مظاہرے غیر معمولی کیوں ہیں؟ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال قازقستان وسطی ایشیا کا ایک اہم اور بااثر ملک ہے اور یہ خطے کے 60 فی صد جی ڈی پی کا ذمے دار بھی ہے۔ اسے اکثر آمرانہ ریاست کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا نواں بڑا ملک ہے لیکن اس کی آبادی 18.8 ملین افراد کے ساتھ نسبتاً کم ہے اور یہ بھی سازش کے تحت کم رکھی گئی ہے۔ 1984 میں سویت دور میں ملک کے پہلے وزیر اعظم بننے والے نور سلطان ناذربیاف کی حکومت رہی۔ بعدازاں وہ بلا مقابلہ ملک کے صدر منتخب ہو گئے اور ان کے دور اقتدار میں ان کی شخصیت کی چھاپ رہی اور ملک بھر میں ان کے مجسمے لگائے گئے اور ملک کے نئے دارالحکومت کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا۔ بالآخر 2019 میں حکومت مخالف احتجاج کے پیش نظر نورسلطان اقتدار سے ہٹ گئے۔ قازقستان کے صدر جومارت توکایف ان کے منتخب کردہ جانشین ہیں جو ایک متنازع انتخاب کے بعد صدارت کا عہدہ سنبھالیں ہوئے ہیں۔ اس انتخاب پر بین الاقوامی مبصرین کو بھی تحفظات تھے اور انہوں نے اس پر تنقید بھی کی تھی۔ اقتدار میں نہ رہنے کے باوجود بھی نور سلطان اب بھی ملکی سیاست میں بہت بااثر ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ مظاہروں کا بنیادی مقصد ان کے خلاف ہے۔ ان کے مستعفی ہونے کے تقریباً تین برس بعد بھی قازقستان میں بہت کم تبدیلی آئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد اصلاحات نہ ہونے، معیار زندگی گھٹنے اور محدود شہری آزادی حاصل ہونے پر سخت خائف ہے۔ ناذربیاف روس کے حمایت یافتہ ہیں اور اب روس کی افواج وہاں رہنے کی میعاد نہیں بتا رہی ہے عوام کے لیے نئی مشکل پیدا کر دے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے روس کی سازش کے تحت وہاں ہنگامہ برپا ہوا ہے اور اب روسی افواج اسی آڑ میں قازقستان میں داخل ہو گئیں ہیں اور قبضے کی رسمی کارروائی جاری ہے۔