سعودی عرب میں بے حیائی علماء اور مسلمان خاموش؟

1281

بہت وقت گزرنے بعد ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہم بھی خاموش رہیںکہ ’’چلی رسم کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے‘‘ کے مصداق اگلی مرتبہ عمرے کے لیے جاتے وقت سمجھداری سے منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ عمرے کے طریقہ آداب میں یہ بھی شامل کرنا پڑے گا کہ وہاں انڈین اداکاروں کا کوئی کنسرٹ یا انگریزی فلموں کا کوئی میلا لگا نہ مل جائے۔ کیوں کہ’ اللہ وی راضی تے عبداللہ وی راضی‘ (اللہ بھی راضی اور اللہ کا بندہ بھی راضی) کی پالیسی ہی آج کل ’’حجاز مقدس‘‘ کے حکمرانوں کا اصل مقصد بنا ہوا ہے لیکن افسوس سب خاموش ہیں، وہ بھی جن کے نام پر لوگ لاکھوں روپے حج وعمرہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پانچ سال قبل سرکاری بیلٹنگ پر حج کی سعادت کے موقع پر یہ دیکھنے کو ملا کہ عوام طارق جمیل اور عامر لیاقت اور دیگر کے ساتھ حج پر 12سے 14لاکھ روپے خرچ کر رہے ہیں جبکہ اُس وقت حج کے سرکاری پر ڈھائی لاکھ اور نجی حج آپریٹرز کے مدد سے 5لاکھ میں حج کی سعادت حاصل ہو جاتی تھی۔
لیکن بی بی سی اور بھارتی وعالمی میڈیا دنیا کے مسلمانوں کو یہ طعنے دے رہے ہیں کہ سعودی عرب جسے ایک قدامت پسند ملک تصور کیا جاتا ہے اب تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور اس کی واضح مثال حال ہی میں وہاں ہونے والے بالی وڈ اسٹار سلمان خان اور بین الاقوامی معروف گلوکار جسٹن بیبیر کے کنسرٹ ہیں۔ بھارتی اداکار سلمان خان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پرفارم کرنے پہنچے تھے۔ ان کے اس دورے کو ’’دبنگ ٹور‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سلمان خان کے ساتھ فلم اسٹار شلپا شیٹھی، جیکولین فرنینڈس اور دیگر فنکار جلوہ گر ہوئے۔ سعودی حکومت نے پہلی مرتبہ اس بڑے پیمانے پر بالی وڈ ایونٹ کا انعقاد ’روشن خیال‘ سعودی عرب کے تحت کیا ہے۔ اس میگا ایونٹ میں اطلاعات کے مطابق 80 ہزار افراد نے شرکت کی اور بالی وڈ کے بھائی سلمان خان نے اس کنسرٹ میں بے حیائی اور نیم و مکمل عریانیت کے ساتھ انٹری دی اور سعودی عرب میں اپنی بے حیائی کی پرفارمنس کا جادو جگایا۔ اس سے قبل معروف بین الاقوامی گلوکار جسٹن بیبر نے بھی چھے دسمبر کو ریاض میں ایک کنسرٹ کیا تھا جس میں تقریباً 70 ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔ سلمان خان کے ریاض میں کنسرٹ سے قبل انہیں اعزاز دینے کے لیے ان کے ہاتھوں کا نقش بھی لیا گیا جو ریاض کی مصروف ترین شاہراہ پر نصب کیا جائے گا۔ سعودی عرب اب بالی وڈ اور ہالی وڈ اسٹارز کے ایونٹ منعقد کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ روشن خیالی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ سال سے سعودی حکمرانوں کی کوشش ہے کہ وہ اپنی تجارت اور معیشت کا انحصار تیل کے علاوہ دیگر ذرائع پر کام کیا جائے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ارادہ ہے کہ ان کے ’وژن 2030‘ کے تحت اگلے آٹھ برسوں میں سعودی عرب کو معاشی اور تجارتی مرکز بنا دیا جائے لیکن اس ترقی کے لیے بے حیائی کے راستے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس صورتحال کے بارے میں سعودی حکمرانوں سے جن علماء کرام نے اختلاف کیا اس کو حرام قرار دیا ہے ان میں بیش تر کی گردنیں سعودی حکمرانوں نے مار دی ہیں اور آئندہ بھی کوئی ایسا کر ے گا اُس کے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ پاکستان میں سعودی حکمرانوں کے بہت سے حامی اور مدد گار ہیں وہ بھی اس سلسلے مکمل خاموش ہیں جن میں جسٹس تقی عثمانی اور ان کے لاکھوں عقیدت مند شامل ہیں اور ان میں بہت بڑی تعداد سعودی عرب میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں اور آلِ سعود سے قربتیں بھی رکھتے ہیں۔ بس یہی نہیں ہمارے ملک میں موجود شیعہ اور بریلوی علماء جن کو سعودی عرب پر دین کے خلاف کام کرنے پر بہت اعتراض ہو تا ان کی بھی معمولی اور بہت ہی دھیمی آواز میں کچھ بول رہے۔ سعودی حکمرانوں کی غیر شرعی احکامات سے زیادہ سعودی علماء آواز اُٹھا رہے اور اپنی گردنیں تن سے جدا کر وارہے ہیں اور پوری دنیا میں کہیں بھی ان کی حمایت کرنے والے نظر نہیں آتا عالمی ایمنسٹی کے مطابق اس وقت 300 سے زائد علماء سعودی جیل میں تاریخ کی بد ترین اذیت کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔
یہ سلسلہ 2019 سے شروع ہے قبل ازیں سعودی عرب نے ملکی تاریخ کی پہلی فارمولا ون کار ریسنگ کے ایونٹ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جہاں ایک جانب سعودی عرب روشن خیالی کا تاثر قائم کرنے کے کوشش کر رہا ہے۔ دوسری جانب اسی سعودی عر ب میں گزشتہ ہفتے تبلیغی جماعت کو ’’معاشرے کے لیے خطرناک‘‘ قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کردی گئی۔ سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور نے اس بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہر جمعہ کی نماز کے خطبے میں تبلیغی جماعت کی معاشرے کے خطرات کے متعلق بیان علماء کے لیے لازم ہوگا۔ سعودی وزارت نے تبلیغی جماعت کو دہشت گردی کی جانب پہلا قدم قرار دیا تھا۔
سعودی عرب کی وزارت اسلامی امور نے جس دن تبلیغی جماعت کو دہشت گردی کا دروازہ اور مساجد میں ان کے خلاف خطبہ دینے کا حکم صادر کیا اُسی دن جدہ میں جسٹن بیبر کا کنسرٹ تھا اور اس پُر امن کنسرٹ میں 25ہزار افراد کو مفت ٹکٹ جاری کیے گئے۔ لیکن سوال یہ ہے ہم پاکستانی کہاں کم ہیں سلمان خان ریاض میں اور پاکستانی یونیورسٹیوں میں کنسرٹ کے نام پر بے حیائی کی محفل کا انعقاد جاری ہے۔ دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے اور ہم پیچھے کی طرف کی طرف گامزن ہیں۔
سعودی عرب میں حرم خالی، حج تقریباً معطل، مقامات مقدسہ جانے پر 10 ہزار ریال جرمانہ اور عمرہ بھی بند، ہر نمازی کو ایک ایک ایپ جاری کی جارہی ہے۔ جس کی مدد سے وہ مسجد ِ نبوی میں صر ف دو وقت کی نماز ادا کر سکے گا اور اگر کہیں چھپ چھپا کر مسجد ِ نبوی میں پہنچ بھی گیا تو اس کو جرم کی سزا سے خلاصی کے لیے 10ہزار ریال ادا کرنا ہوں گے۔ اس کے بر عکس سینما ہال فل، فلم فیسٹیول جاری رہے گا، کورونا کے دوران 20 نئے سینما کھل گئے۔ سعودی میٹا سینما (META) کے مطابق 40 ہفتوں میں 73 ملین ڈالر کے سینما ٹکٹس فروخت ہونے کا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ 2020ء میں پوری دنیا کی فلمی صنعت زبوں حالی کا شکار رہی۔ لیکن سرزمین ِ وحی اور حجاز مقدس میں اسے عروج حاصل رہا۔ گزشتہ ماہ جدہ میں پندرہ دن کے وقفے سے دو بڑے میوزیکل کنسرٹ ہوئے جن میں سعودی مرد وخواتین بغیر کسی قسم کے ایس او پیز کے ناچ گانے کے مخلوط پروگرام میں شریک رہے۔
’’اے مسلمانوں! خانہ کعبہ بنانے کے بعد جب سیدنا ابراہیمؑ کو وحی آئی کہ اب اعلان کرو تو آپ نے تعجب سے فرمایا اس صحرا سے میری آواز دنیا تک کیسے پہنچے گی تو جبرائیل نے فرمایا، یہ آپ کا کام نہیں ہے آپ صرف اعلان کریں آواز پہنچانا اللہ کام ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ سعودی عرب میں بے حیائی علماء اور مسلمان خاموش؟