!فوادچودھری کابیان اورقائدکا پاکستان

567

بسا اوقات بات اتنی اچھی نہیں ہوتی، مگر بیان کرنے والے کا طرزِ سخن میٹھا اور دل نواز ہو تو سننے والا کان لگائے سنتے رہنا چاہتا ہے۔ بقول احمد فراز:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
کبھی کبھار بات اتنی بری بھی نہیں ہوتی، وہ لہجہ کرخت اور سمع خراش ہوتا ہے جسے سن کر سامع ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جن کی بات بھلی معلوم ہوتی ہے نہ اندازِ بیاں دلوں کو بھاتا ہے۔ ان کے حوالے سے یہ ذہن بن چکا ہوتا ہے کہ ان کی زبان سے کبھی بھلی بات، دلوں کو جوڑنے والی، لبوں پہ مسکان کا باعث بننے والی، علم میں اضافے کا سبب کہلانے والی، ملک و ملّت کی ترقی اور خوش حالی کی وجہ بننے والی بات سننے کو نہیں مل سکتی۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کا شمار بھی انھی ’’انمول‘‘ لوگوں میں ہوتا ہے۔ فواد چودھری وقتاً فوقتاً اپنے اُلٹے سیدھے اور بے تُکے بیانات کو لے کر تنقید کی زدمیں ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے یومِ پیدائش کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ قائد اعظم قطعاً ایک مذہبی ریاست نہیں چاہتے تھے۔ ان کے اس بیان پر سیاسی ومذہبی حلقوں کی جانب سے انہیں خوب تنقیدکا سامنا ہے۔ ان پر تنقید اس لیے بھی بنتی ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت کے موجودہ وزیر ہیں جنہوں نے اسی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ پھر کیوں کر فواد چودھری کو ایسا بیان دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آخر انہیں اسلامی ریاست کے تصورسے اتنی تکلیف کیوں ہے؟ اگر اسی نظریے کی ترجمانی کرنا ضروری تھا تو پھر ایسی تنظیم اور تحریک کا حصہ کیوں بنے جس کا نصب العین ہی مدینہ جیسی اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ موجود حکومت میں مدینہ جیسی اسلامی ریاست کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔
تحریک ِ انصاف کی بدقسمتی ہے کہ انہیں فیاض الحسن چوہان، فواد چودھری اور فردوس عاشق اعوان کے سوا اطلاعات کی فراہمی کے لیے کوئی قابل اور سنجیدہ فرد نہیں مل پاتا۔ گھما پھرا کر یہ قلم دان انھی نالائق (اس لیے کہ ہربار کسی نہ کسی غیرضروری ایجنڈے میں دل چسپی لینے کے باعث ذمے داری سے ہٹادیا جاتا ہے) اور منہ پھٹ (معذرت کے ساتھ) افراد کے حوالے کردیا جاتا ہے نتیجتاً کچھ ہی عرصے بعد خان صاحب اور ان کی کابینہ کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ساڑھے تین سال سے ان کی یہی مشق ہے، غالباً اب وہ عادی ہوچکے ہیں۔
فواد چودھری کے بیان کے تناظر میں جب قائداعظم کے پاکستان بنانے اور اس کے نظام کی اساس سے متعلق بیانات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فواد چودھری جیسے لوگ حقیقت سے نظریں چرانے اور مغربی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا حصہ ملا رہے ہیں۔ قائد اعظم محمدعلی جناح نے ۵ ستمبر ۱۹۳۸ء کو ہندوستان ٹائمزکی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’پاکستان کوئی نئی چیز نہیں، یہ تو صدیوں سے موجود ہے۔ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے میں جہاں آج بھی ۷۰ فی صد سے زائدآبادی مسلمانوں کی ہے، یہی مسلمانوں کا ملک ہے۔ ان علاقوں میں ایک ایسی آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت ہوگی جس میں مسلمان اپنے مذہب، تہذیب و تمدّن اور قرآن و سنت کے قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں گے‘‘۔
فواد چودھری نے اپنے زعم میں یہ تک کہہ ڈالا کہ قائد ایک ماڈرن اور دوسرے لفظوں میں مغرب زدہ شخص تھے۔ جب کہ قائد اعظم نے ہمیشہ نبی مہربانؐ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ آپ کے یہ الفاظ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ اور اہلِ علم وقلم کے ذہنوں میں نقش ہیں، قائد فرماتے ہیں: ’’ہمارا دستور وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے قرآن وسنت کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے۔ ہم دنیا کے لیے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے‘‘۔
دوسری طرف آج کے مغرب زدہ لوگ جو بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت ومشاورت کے منصب پر موجود ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ اسلام کا نام لینے میں شرماتے اور ہچکچاتے پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد ۱۹۴۸ء میں قائداعظم نے پاکستان کو دنیا کی ایک عظیم اسلامی ریاست بنانے کا اعلان ببانگ ِ دہل اور دبنگ انداز میں کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر خدانے مجھے توفیق بخشی تو میں دنیا کو دکھادوں گا کہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر پاکستان پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ بنے گا، ہم تحریک ِ پاکستان کے جذبے کو کبھی ماند نہیں پڑنے دیں گے۔ پاکستان کو اسلامی نظریہ حیات کے فروغ واشاعت کا مرکز بنائیں گے‘‘۔
گویا تحریک ِ پاکستان کے دوران بلند ہوتے یہ نعرے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟؟ لاالٰہ الّااللہ‘‘ … ’’تیرا میرا رشتہ کیا؟؟ لاالٰہ الّااللہ‘‘۔ اور اسی طرح دوقومی نظریہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کی اساس اسلام ہے، اس کا تشخص اسلامی ہونا ہے۔ جو لوگ اس ملک کو مغربی طرز پر سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ان ہزاروں شہداء کے خون سے غداری کررہے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان پر ہر دور میں ایسے لوگ مسلّط رہے ہیں جو ہمیشہ سے اپنوں سے غداری اور انگریزوں سے وفاداری کا ثبوت پیش کرتے رہتے ہیں۔ خان صاحب نیا پاکستان اور مدینہ جیسی اسلامی ریاست تو نہ بناسکے، انہیں کم از کم فواد چودھری جیسے وزراء کو اپنی کابینہ میں جگہ نہیں دینی چاہیے، تاکہ ان کا پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کا بھرم تو قائم رہے۔ فواد چودھری جیسے لبرلز کے لیے اقبال عظیم کی زبانی یہ پیغام ہے:
اپنے مرکزسے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے