بھارت اقلیتوں کا جہنم

471

بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا نہیں تھکتا۔ آج اس بھارت میں اقلیتوں کی زندگی ہر لمحہ خطرے میں ہے۔ مسلمانوں پر تو ویسے زمین تنگ ہے اب عیسائیوں، سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوں پر بھی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال بھارتی ریاست کرناٹک میں ہندو انتہا پسنددوں کی جانب سے کرسمس کے موقع پر 160سال پرانے چرچ پر حملہ کرنے کی ہے، حملے کے دوران میں چرچ کے شیشوں کو توڑ دیا گیا اور چرچ میں موجود افراد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ آر ایس ایس کے غنڈوں نے کرسمس کی تقریبات بند کرادیں ریاست کرناٹک میں 3ماہ میں چرچ پر یہ گیارہواں حملہ تھا۔ بھارت کے انتہا پسندوں کی جانب سے اقلیتوں کو ان کی عبادات سے جبری طور پر محروم کرنے کی اس لہر نے پورے بھارت میں ایک خوف اور دہشت کی فضا قائم کر دی ہے۔ اس سے قبل احمد آباد کی بابری مسجد کو شہید کیے جانا ہندو انتہا پسندوں کی سوچ اور فسطائیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بھارت میں آج بھی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کو نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ہندو انتہا پسند مسیحیوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچاتے اور انہیں عبادت سے روکتے ہیں۔ آگرہ میں سانتا کلازکا پتلا بھی نذر آتش کیا گیا اور سانتا کلاز کا لباس پہنے پر سخت نتائج کی بھی دھمکی دی گئیں۔ ریاست کرناٹک میں ہندوانتہا پسندوں نے اسکول میں ہونے والی کرسمس کی تقریب کو بزور طاقت رکوا دیا اور اسکول انتظامیہ کو آئندہ اس طرح کی تقریبات منعقد کرنے پر سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ ضلع منڈیا میں اپنے ساتھیوں کے لیے اسکولوں کے طلبہ کی جانب سے کرسمس کی تقریب کو بھی ہندو انتہا پسند نے تلپٹ کر دیا اور اسکول کے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
ہندوں کے ان مظالم پر اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اور ان حالات میں موت کے خوف سے بھارت میں آباد مسیحی خود کو ہندو ظاہر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مسیحیوں پر بڑھتے مظالم کی وجہ ہندوانتہا پسندانہ سوچ اور ہندو انتہا پسند نریندر مودی حکومت کی بھارت کو قوم پرست ملک بنانے کی پالیسی بھی ہے۔ اس سلسلے میں ہندو انتہا پسند وکلا نے مسیحی برادری کے خیراتی اداروں کو بند کروانے کے لیے شکایات بھی درج کروائی ہوئی ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر عالمی رائے عامہ کو بھی شدید تحفظات ہیں لیکن عالمی قوتوں کی خاموشی ان کی مجرمانہ سرپرستی کے برابر ہے۔ بھارت کے وزیراعظم مودی مسلمانوں اور مسیحی برادری کی نسل کشی پر ناصرف یہ کہ خاموش ہیں بلکہ اس کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں۔ انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو جان سے مارنے اور ان کے قتل عام کا اعلان کیے جانے پر بھی بھارتی حکومت اور رہنما خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور بھارت کو اقلیتوںکے لیے جہنم بنا دیا گیا ہے اور مسلمان، سکھ، عیسائی غرض یہ کہ تمام ہی مذاہب کے بھارتی باشندوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں اور تمام ہی اقلیتیں اب خود کو بھارت میں غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس نے تو ہندوں کے علاوہ تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے زمین تنگ کر دی ہے اور انسانیت سوز مظالم نے تمام ہی اقلیتوں کو دیوار سے لگا دیا ہے اور مساجد، چرچز، گورود وارے کوئی بھی عبادت گاہ ہندوانتہا پسندوں سے محفوظ نہیں رہی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اب بھارت میں دیگر مساجد کی شہادت کے لیے جواز پیدا کیے جارہے ہیں اس افسوس ناک صورتحال میں بھارت سرکار اور بھارت کے سرکاری ادارے اور حتی کے عدلیہ بھی ملوث ہے جیسا کہ انہوں نے بابری مسجد کے معاملے پر اپنا شرمناک کردار ادا کیا تھا۔ عالمی برادری اگر ماضی میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ اور بابری مسجد کی شہادت کے افسوساناک واقعات پر بھارت سے باز پرس کرتی اور اس کی لگام کھینچی جاتی تو آج بھارت کے حالات اتنے خراب نہیں ہوتے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت میں ناصرف یہ کہ کرسمس پر ہونے والے واقعات کا سخت نوٹس لیکر بھارت کے خلاف تادینی کاروائی عمل میں لائے اور مساجد کی شہادت کے لیے شروع ہونے والی مہم کا بھی نوٹس لیا جائے اور اقلیت دشمن اقدامات کے خلاف بھارت کا گھنائونا چہرہ پوری دنیا میں بے نقاب کیا جائے ورنہ گجرات میں مسلمانوں کو ٹرین میں زندہ جلانے کا انسانی المیہ ایک بار پھر رونما ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوںکا سخت نوٹس لے۔ بھارت کا رویہ راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ کے ذہنی دیوالیہ پن کا عکاس ہے۔ مسیحی ادب کو جلانے والے ہندو انتہا پسند سانتا کلاز مردہ باد اور گوبیک سانتا کلاز کے نعرے لگا کر گرجا گھروں میں دھاوا بول رہے ہیں اور اسکولوں اور عبادت کرنے والوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ہٹلرکے نقش قدم پرچل رہے ہیں اور سیکولر ہندوستان گنگا جمنا میں ڈوبتا اور دفن ہوتا نظر آرہا ہے۔