صحافت کے پائوں میں میں اشتہارات کی زنجیریں ہیں‘ ہر وقت سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے

411

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) صحافت کے پائوں میں اشتہارات کی زنجیریں ہیں‘ ہر وقت سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے‘ ملک میں جمہوریت کی مضبوط، عدلیہ کی آزادی اور مقننہ کی خود مختاری ناگزیر ہے‘ مارشل لا اور جمہوری دور میں پابندیاں برداشت کیں‘ احتیاط سے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے‘ میڈیا ہائوسز کے مالکان اپنے مفادات پر زد پڑنے پر صحافی کارکنان کو استعمال کرتے اور آزادیٔ صحافت کا نعرہ لگاتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ممتاز بزرگ صحافی، پاکستان گروپ آف پبلی کیشنز کے چیف ایڈیٹر، تجزیہ کار اور انجمن مدیران جرائد کے سابق صدر مجیب الرحمن شامی، تجارت گروپ آف پبلیکیشنز کے چیف ایڈیٹر اور انجمن مدیران جرائد کے سابق صدر جمیل اطہر قاضی اور وفاقی انجمن صحافیاں (دستور گروپ) کے سابق صدر، سابق چیف رپورٹر نوائے وقت لاہور فرخ سعید خواجہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’پاکستان میں صحافت کتنی آزاد ہے؟‘‘ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ آزادیٔ صحافت کا مسئلہ ہر کسی کے اپنے فہم کا معاملہ ہے‘ ہم جس طرح اسے سمجھیں گے‘ اتنے ہی آزاد ہیں‘ پاکستان میں صحافت کو مکمل آزادی حاصل ہے‘ یہ کسی کی غلام نہیں‘ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاط سے اپنے خیالات کا اظہار کریں تو صحافتی ضابطہ ٔ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے ہم اپنی بات آزادی سے اپنے قارئین، ناظرین اور سامعین تک پہنچا سکتے ہیں تاہم بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے‘ صحافت کی آزادی کا معاملہ اس کے درست استعمال پر بھی منحصر ہے‘ اپنے علم، خبر اور کردار کے ذریعے ہم اپنا یہ حق استعمال کر سکتے ہیں‘ ہم نے ماضی میں جبر کے بڑے بڑے ادوار دیکھے ہیں‘ فوجی آمریت بھی بھگتی اور جمہوری آمروں کی پابندیاں بھی برداشت کی ہیں‘ اخبار شائع کرنے کے لیے ڈیکلریشن تک نہیں ملتے تھے‘ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑتی تھیں‘ اب ماضی کے مقابلے میں سماجی، برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی بات بخوبی کہنے کے زیادہ اور آسان مواقع موجود ہیں۔ جمیل اطہر قاضی نیکہا کہ پاکستان کی صحافت آج بھی اتنی ہی آزاد ہے‘ جتنی ماضی کے ادوار میں تھی‘ یعنی بالکل آزاد نہیں، صحافت پر کوئی دور ایسا نہیں آیا جب یہ مکمل آزاد رہی ہو‘پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی ’’نوائے وقت‘‘ جیسا اخبار بند کر دیا گیا‘ حقیقی آزادی کہیں نہیں یہ جابر سلطان کی پیشگی اجازت اور قدغن سے مشروط ہے‘ آزادی اور قربانی لازم و ملزوم ہیں‘ آزادی سیاسی ہو، صحافتی ہو یا اظہار رائے اور اظہار خیال کی آزادی ہو‘ سب کے حصول کے لیے قربانیاں لازمی ہیں‘ صحافت کے پائوں میں اشتہارات کی زنجیریں ہیں‘ برقی یا ورقی ذرائع ابلاغ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا‘ اشتہارات کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘ مجلس ادارت اور ادارے کی انتظامیہ کے سر پر ہر وقت یہ تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ کہیں کسی خبر سے اشتہار بند نہ ہو جائیں‘ ایسے میں کہاں کی اور کیسی آزادی؟ جب تک ملک میں جمہوریت مضبوط نہ ہو، عدلیہ آزاد نہ ہو، مقننہ خود مختار نہ ہو، صحافت کی آزادی ایک خواب ہی رہے گی۔ فرخ سعید خواجہ نے کہا کہ صحافت آزاد تو بالکل نہیں ہے تاہم پاکستان میں صحافت کی آزادی کا مسئلہ ذرا انوکھا اور قدرے پیچیدہ ہے‘ یہاں صحافت کی آزادی کا مطلب ادارے کے مالکان کی آزادی ہے‘ کارکن صحافی کی آزادی کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘ صحافتی اداروں میں مالکان کی پالیسی لاگو ہوتی ہے اور وہی اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ جب کسی مالک کے مفاد پر زد پڑتی ہے تو وہ آزادی صحافت کا نعرہ بلند کرتا ہے اور کارکن صحافی چونکہ اس کے ملازم ہوتے ہیں اس لیے انہیں احتجاج کے لیے استعمال کرتا ہے‘ جہاں تک کارکن صحافیوں کا معاملہ ہے تو ان کے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ صحافتی اداروں میں اول تو ان کے معاوضے کسی طے شدہ فارمولے کے تابع نہیں ہوتے‘ انہیں تقرر نامے تک جاری نہیں کیے جاتے جو معمولی معاوضے طے کیے جاتے ہیں وہ بھی پورے ملتے ہیں نہ مقرر وقت پر ادا کیے جاتے ہیں‘ تنخواہوں کی ادائیگی میں کئی کئی ماہ کی تاخیر معمول بن چکی ہے اور مالک جب چاہیں کسی پیشگی نوٹس اور وجہ بتائے بغیر اخباری کارکنوں کو کان سے پکڑ کر ادارے سے نکال دیتے ہیں‘ وہ خود کو کسی قانون اور ضابطے کا پابند نہیں سمجھتے‘ ان حالات میں صحافتی آزادی کی محض باتیں ہیں، حقیقت کچھ بھی نہیں۔