کراچی بچائو مارچ

541

گزشتہ تین دہائیوں سے ایم کیو ایم کراچی کے سیاہ وسفید کی مالک تھی۔ اہل کراچی نے بھی ایم کیو ایم پر جس اعتماد کا اظہار کیا وہ بھی ناقابل فراموش ہے اور اس کی ماضی میں کوئی نظیر بھی نہیں ملتی۔ ریموٹ کنٹرول کی طرح پاکستان کی سب سے زیادہ معزز اور پڑھی لکھی قوم کو مداری کی طرح نچایا جا رہا تھا اور حقوق کے چکر میں اہل کراچی کی وہ درگت بنائی گئی کہ نازیوں کے ظلم کو بھی شرما دیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے اتنے بخیے ادھیڑے گئے کہ ساری اکڑ نکل چکی ہے۔ وفاقی حکومت میں شامل ضرور ہیں لیکن ہر وقت اختیارات کا رونا روتے ہیں۔ اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں کہ اس کے بغیر زندہ بھی نہیں رہے سکتے ہیں۔ اب اہل کراچی بھی ہوشیار ہوگئے ہیں اور انہوں نے مکمل طور پر ان لسانی جماعتوں سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیا جس کا واضح ثبوت کراچی سے تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی ہے۔ یہ الگ بات کہ تحریک انصاف نے اپنی نااہلی سے کراچی کے عوام کو مایوس کیا ہے۔
کراچی میں پانی ہے اور نہ نکاسی آب کا کوئی نظام، ٹرانسپورٹ پر مافیا کا قبضہ ہے اور یہ مافیا اتنی مضبوط ہے کہ اس نے پورے نظام کو اپنی مٹھی میں لیا ہوا ہے۔ کے ٹی سی اور سی این جی بسوں کو اسی مافیا نے برباد کیا اور اب گرین لائن منصوبہ جو کہ فروری 2016 نواز شریف دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا اور فروری 2017 کو اس منصوبہ کو مکمل ہونا تھا۔ تحریک انصاف کا ساڑھے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب تک نمائش تک یہ منصوبہ مکمل ہوا ہے اور ٹاور تک اس منصوبہ کو مکمل ہونے تک مزید چھے ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس منصوبہ کا دو مرتبہ افتتاح بھی کیا جا چکا ہے اور اب ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان اس منصوبے کے پہلے فیز کا افتتاح کر رہے ہیں اور دوسرے منصوبے کا افتتاح بعد میں کیا جائے گاجو نمائش سے ٹاور تک کا ہوگا۔ دوسری جانب سندھ حکومت نے اسمبلی میں بلدیاتی ترمیمی ایکٹ 2021 پیش کر کے ایک نیا ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ گورنر سندھ نے اس بل پر اپنے اعتراضات لگا کر اس بل کو واپس تو کر دیا ہے لیکن اس بل کو پیش کر کے پیپلز پارٹی نے اپنے عزائم سے آگاہ کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس بل کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی اور پورے شہر میں اس کالے قانون کے خلاف احتجاجی دھرنے بھی دیے گئے اور اتوار19دسمبر کو مزار قائد سے کے ایم سی بلڈنگ تک سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں کراچی بچائو مارچ کیا گیا۔
یہ کالا قانون سندھ بھر کے بلدیاتی اداروں کو مفلوج اور غیر موثر بنانے کی سازش ہے۔ گورنر سندھ وفاق کے نمائندے ہیں اور وفاق کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام صوبوں کے لیے ایسی قانون سازی کرے کہ بلدیاتی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا عمل جاری رہے۔ تحریک انصاف بھی اب تک اہل کراچی کے لیے نعروں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں کر سکی ہے پیکیجز کے نام پر عوام کو دھوکے پر دھوکا ہی دیا جا رہا ہے۔ وفاق میں بھی پی ٹی آئی کا رویہ کراچی دشمن ہی رہا ہے۔ جعلی مردم شماری جس میں کراچی کی آدھی آبادی کو ہی غائب کر دیا کر دیا گیا ہے اور اسے منظور بھی کر لیا گیا ہے۔ ظالمانہ اور جابرانہ کوٹا سسٹم میں بھی غیر معینہ مدت کے لیے اضافہ کر دیا گیا ہے جو کسی بھی طرح اہل کراچی کے حق میں نہیں ہے۔ کراچی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور کراچی کے لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان آج چنگ چی رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی، اقتصادی شہر ہے اور اس شہر کے ریونیو کی وجہ سے وفاق اور صوبے کو چلایا جاتا ہے۔ اس شہر میں بجلی، پانی، سیوریج، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم سمیت شہر کے گمبھیر مسائل ہیں۔ کراچی کے ان تمام مسائل کا واحد حل بااختیار شہری حکومت کا قائم ہونا اور میگا میٹروپولٹین سٹی کا درجہ دینے سے ہی وابستہ ہے۔ کراچی سے منتخب ہونے والی جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ یہ سب مل کر کراچی اور اہل کراچی کو لوٹ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے موجودہ بلدیاتی بل میں اختیارات کے بڑھانے کے بجائے مزید کم کر دیے گئے ہیں اور کراچی کے وسائل پرکنٹرول اور شہری اداروں کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے غیر آئینی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے نفرت کی سیاست کو تقویت حاصل ہو رہی ہے۔
کراچی کے بے بس مجبور عوام کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کے زخموں پر مرحم بھی رکھے اور اس کا علاج بھی کرے اور انہیں منجھدار سے بھی نکالے۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور سعید غنی سعید دیگر وزراء بلدیاتی ایکٹ کے حق میں بھی زور دار طریقے سے چیخ پکار کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی جس نے اول روز سے اس ایشو پر کام کیا لیکن ان پی ٹی آئی۔ متحدہ، پی ایس پی، حقیقی سب اس ایشو کو ہائی جیک کرنے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں بول کر کراچی کی عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے لیکن کراچی کا ہر شخص جانتا ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کو بچانے کے لیے آگے بڑھ کر جدوجہد شروع کی۔ متحدہ، تحریک انصاف تو حکمران پارٹیاں ہیں اور کراچی کے عوام ان ہی کا کیا دھرا بھگت رہے ہیں اور جماعت اسلامی کو روکنے کے لیے یہ سب تماشا اور نورا کشتی کی جارہی ہے۔ عوام ان سب بہروپیوں کو اچھی طرح جان بھی گئے ہیں اور پہچان بھی گئے ہیں اور اب کسی بھی قیمت پر ان کے چکر میں نہیں پھنسے گے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ ایک بار پھر کراچی میں لسانی فساد برپا کرنا چاہتی ہیں اور لاشوں کی سیاست کے ذریعے کراچی پر قبضہ کے ایک بار پھر خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ اہل کراچی اب بیدار ہیں اور کراچی کو بچانے کے لیے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں تاریخی جدوجہد کی جائے گی۔