سندھ کی تاریخ تہذیب اور ثقافت

1907

سندھ صوفیاء کرام اور اولیاء کرام کی سرزمین ہے اور ان اولیاء اللہ نے اپنی تعلیمات، دعوت پیغام اور شاعری کے ذریعے اللہ کے پیغام کو عام کیا ہے۔ چاہے وہ خیر پور کے سچل سرمت ؒ ہوں چاہے بھٹ شاہ کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی، سہون کے لعل شہباز قلندرؒ، دادوکے مخدوم بلاول باغبانی ؒ یا پھر مٹیاری ہالاکے سید مخدوم غوث الحق سرور نوحؒ یا اسی طرح کی دیگر صوفیاء کرام جن کے نقوش آج بھی سندھ میں موجود ہیں۔ سندھ کے عوام ان شخصیات سے بے حد روحانی عقیدت واحترام رکھتے ہیں اور محمد بن قاسم ؒ کے بعد ان ہی شخصیات نے سندھ میں اسلام کے آفاقی پیغام کو عام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سندھ جو محمد بن قاسم کی آمد کی وجہ سے باب الاسلام کہلایا اور ملتان تک اسلام کی دعوت کو عام کرنے میں سندھ اور اس کے صوفیاء کرام اور اولیاء کرام کا اہم کردار ہے۔ سندھ کے غریب لوگ جن کی اکثریت انتہائی غریب اور پسماندہ ہے اور وڈیروں جاگیرداروں نے انہیں اپنے شکنجے میں مکمل طور پر جکڑا ہوا ہے۔ ان کے پاس نہ رہنے کو مکان ہے نہ پہنے کو کپڑا نہ تعلیم اور نہ ہی صحت کی کوئی بہتر سہولت۔ سندھ کے دیہی علاقوں کی اکثریت پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ پہلے لوگ تھر کے قحط زدہ علاقے کی بات کرتے تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ پورا سندھ تھر کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سندھ حکومت بجائے اس کہ وہ سندھ کے غریب اور مظلوم عوام کو بنیادی سہولت فراہم کرے۔ سندھ کے غریب بچوں کو تعلیم سے روشناس کرائے انہیں صحت کی بہتر سہولت فراہم کرے انہیں پہنے کو کپڑا اور رہنے کو مکان دے ان ظالم حکمرانوں نے سندھ کی ثقافت کے نام پر انہیں ناچ گانے بھنگڑے پر لگا دیا ہے۔
سندھ کلچر ٹوپی اجرک کے نام پر جو طوفان بدتمیزی کراچی سے لیکر کشمور تک کیا گیا کہ الامان الحفیظ، نوجوان بچے بچیاں سب روڈوں اور سڑکوں پر رقص کررہے تھے، بھنگڑے ڈالے جارہے تھے اور قابل افسوس ناک بات یہ کہ اس ساری خرافات اور بے ہودگی کوسندھ کی ثقافت سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ سندھ کی ایک عظیم تاریخ ہے اور اسے اس طرح مسخ کیے جانا افسوس ناک عمل ہے۔ افسوس ناک بات یہ کہ یہ سب کچھ سندھ حکومت کی سرپرستی اور آشیرواد سے کیا جارہا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں بھی سندھ کلچر ڈے کے نام پر اسی طرح کی خرافات اور ناچ گانے کے پروگرامات منعقد کیے گئے اور اسکول کے طلبہ وطالبات کے درمیان رقص کے مقابلے بھی ہوئے جو افسوس ناک بات ہے۔ ہم سندھ کی تاریخ کو مسخ کر کے اپنے آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سندھ کلچر ڈے کے نام پر اپنی آنے والی نسلوں کو آگاہ کرتے کہ کس طرح ایک مظلوم لڑکی کی فریاد پر محمد بن قاسم راجا داہر سے مقابلے کے لیے سندھ پر حملہ آوور ہوا اور اس نے مظلوم لڑکی کو راجا داہر کے ظلم سے نجات دلائی اور سندھ میں اسلام کی شمع روشن کی۔
محمد بن قاسم جسے پاکستان کا بانی اول کہا
جائے تو بہتر ہوگا۔ 92ہجری میں عربوں اور نومسلم ایرانیوں کی مخلوط افواج کے ہمراہ فارس کے دارالحکومت شیراز سے کوچ کیا۔ وہ سیستان، مکران، پنجگور، گودار اور لسبیلہ سے ہوتا ہوا موجودہ کراچی کے قریب دیبل تک جا پہنچا جہاں پر مسلمان قیدی پس دیوار زندان تھے۔ دیبل کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے مسلسل پیش قدمی کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے سندھ کے متعدد شہر فتح کیے۔ 10رمضان 92ہجری دونوں متحارب افواج کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ حق وباطل کے اس معرکے میں راجا داہر مارا گیا۔ راجا داہر کے مرنے کے بعد موجودہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے دریائے بیاس تک پھیلے مقبوضات دمشق کی اموی سلطنت میں شامل ہوگئے اور راجا داہر کا سندھ محمد بن قاسم کا سندھ بن گیا۔ وہی سندھ جو آج پاکستان میں شامل ہے۔
ظہور اسلام سے پہلے وادی سندھ یا وادی مہران کو سپت سندھو یعنی سات دریائوں کی سرزمین کہتے تھے اور سندھ جو کبھی بمبئی کا حصہ تھا۔ اسی طرح مختلف ادوار میں موہن جودڑو، دیبل، ارڑو سندھ، بھنبھور، منصورہ، عمر کوٹ، اگہم کوٹ، ٹھٹھہ، خدا آباد، حیدرآباد اور کراچی سندھ کے دارالحکومت بھی رہے ہیں۔ یہاں ہوش محمد شیدی، دولہ دریا خان لاشاری، دودوبن خفیف سومرو، سید صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی جیسے بہادروں کی ایک تاریخ اور داستان ہیں۔ یہاں جنگ ہالانی، جنگ میانی، جنگ حیدرآباد، جنگ فتح پور، جنگ کھڑی کھباڑلو، جنگ کچھ اور جنگ جھوک کے تاریخی معرکے ہوئے ہیں لیکن ہماری نسل نو کو اس کی الف اور ب بھی نہیں معلوم۔ ظالموں نے اجرک ٹوپی کے نام پر سندھی قوم کے نوجوانوں کو بچوں کو سڑکوں پر نچوا کر اپنی شاندار تہذیب، ثقافت اور تمدن کا خود مذاق اڑوایا ہے۔ آنے والی نسلیں ہمیں اس جرم پر شاید کبھی معاف بھی نہ کریں۔ ہندانہ تہذیب اور کلچر ہم پر مسلط کرنے والے نہ دین اسلام کہ خیر خواہ ہیں اور نہ پاکستان کہ اور نہ ہی غریب سندھیوں کہ جو خالی پیٹ سر پر سندھی ٹوپی اور اجرک کو سجا کر سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہی سندھ کی ثقافت اور کلچر ہے۔ سندھ کے لوگوں کو ٹوپی اجرک کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ سندھ کی تہذیب اور کلچر تو اتنا شاندار ہے کہ ہم فخر کے ساتھ اسے اپنا سکتے ہیں۔ شاہ جو کلام انسان میں ایک روحانیت کو پیدا کرتا ہے اور بندے کو رب سے قریب کردیتا ہے۔ ہم اگر سندھ کے صوفیاء کرام اور اولیاء اللہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں تو سندھ سے بھوک غربت افلاس کا خاتمہ ہوسکتا ہے ورنہ یہ وڈیرے جاگیردار ہمیں اجرک ٹوپی کے نام پرسڑکوں پر نچوا کر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ سندھ بڑی ترقی کر رہا ہے اور یہاں بڑی خوشحالی ہے۔ سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کی سوچ کی عکاسی تو ہمیں میمن گوٹھ سالار گوٹھ کے مظلوم نوجوان ناظم جوکھیو کے وحشیانہ قتل عام سے ہوتی ہے جس پر وحشانہ تشدد، درندگی اور ظلم کی انتہا کی گئی اور ایک وڈیرے اور منتخب رکن سندھ اسمبلی نے طاقت کے نشے میں اپنے گائوں کے مظلوم رہائشی کو وحشیانہ تشدد کے بعد قتل کر دیا۔ ہفتہ دس دن اخبارات، میڈیا سب چیختے چلاتے رہے بعد میں سب خاموش ہوجائیں گے اور ظلم کا یہ سلسلہ اور ٹوپی ڈراما جاری رہے گا۔