اسٹیٹ بینک کو مانیٹری پالیسی ریٹ میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہیے، ایف پی سی سی آئی

430

ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے تجویز دی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مانیٹری پالیسی ریٹ میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں مزید افراط زر، معاشی جمود اور صنعتی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان میں پالیسی ریٹ ٹول کا استعمال غیر فائدہ مند رہا ہے ؛کیونکہ پاکستان کی معیشت مالیاتی شعبے کے ساتھ کم مربوط ہے۔ وہ ایف پی سی سی آئی کے پالیسی ایڈوائزری بورڈ کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین مانیٹری پالیسی بریف کے شواہد پر مبنی نتائج کی بنیاد پر اپنی سفارشات دے رہے تھے۔

سابق وفاقی سیکرٹری محمد یونس ڈھاگہ کی سربراہی میں کام کرنے والے ایف پی سی سی آئی کے پالیسی ایڈوائزری بورڈ نے پاکستان میں مانیٹری پالیسی کی اثر انگیزی کا جائزہ کے عنوان سے ایک پالیسی بریف شائع کیا ہے جو آئندہ مانیٹری پالیسی کے لیے ایف پی سی سی آئی کی سفارشات کو مرتب کرتا ہے۔ یہ دستاویز مہنگائی کی وجوہات اور بنیادی معاشی اصولوں، کاروباری سائیکل پوزیشننگ اور مانیٹری پالیسی سروے کے تجزیہ پر مبنی مالیاتی پالیسی کی افادیت کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرتی ہے؛ جس کے جواب دہندگان اقتصادی ماہرین، مالیاتی ایکسپرٹس اور صنعتی اداروں کے نمائندے شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق صرف 7 فیصد تجارتی ادارے ملک کے بینکنگ اور مالیاتی نظام سے قرض لیتے ہیں اور یہ حقیقت پالیسی کی شرح میں اضافے کے ذریعے افراط زر کے کنٹرول اور انتظام کو غیر موثر بناتی ہے اور ایک آلے کے طور پر اس کی افادیت کو محدود کرتی ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان افراط زر کی شرح 11.5 فیصد تک بڑھنے کے ساتھ ساتھ معاشی جمود کی طرف بھی بڑھ رہا ہے؛ جب کہ نومبر 2021 میں کور انفلیشن 7.6 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) نے حالیہ مہینوں میں پالیسی ریٹ میں 25 بیسز پوائنٹس اور 150 بیسز پوائنٹس کا بتدریج اضافہ کیا ہے۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کے اجلاس بالترتیب ستمبر اور نومبر 2021 میں ہوئے۔ اس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں تین ماہ کے ٹریژری بلوں کے لیے قابل قبول پیشکیش 228 بیسس پوائنٹس سے بڑھ کر 10.78 فیصد ہو گئیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپلائی شاکس جیسے کہ اجناس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کے موجودہ بحران کوجنم دیا ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اقدامات کے ساتھ ساتھ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے مہنگائی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں حقیقی شرح سود منفی ہے تاہم پالیسی ریٹ اور بنیادی افراط زر کے درمیان فرق پاکستان میں باقی ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ جیساکہ انڈیا (1.8فیصد)اور چین (0.7فیصد) کے مقابلے میں پاکستان میں یہ فرق 1.2 فیصد ہے۔ایف پی سی سی آئی کا پالیسی ایڈوائزری بورڈ سفارش کرتا ہے کہ اسٹیٹ بینک عام افراط زر کی بجائے بنیادی افراط زر کو ہدف بنائے۔ مزید برآں، ایکسچینج ریٹ کے نظام کو لچکدار سے منظم فلوٹ پر منتقل کر کے افراط زر کے دباؤ کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

حکومت کو قیمتوں اورایکسچینج ریٹ میں ردوبدل کو بنیاد بنا کر تباہی پھیلانے والے مختلف کارٹیل کی طرف سے قیاس آرائیوں اور ہیرا پھیری کا مقابلہ کرنے کے لیے قوانین اور ان کے موثر نفاذ کا بھی استعمال کرنا چاہیے۔