دور جاہلیت کی جھلک

875

سیالکوٹ میں ہونے والے سفاکی، درندگی، شقی القلبی اور دور جہالت پر مبنی سانحے کی دلخراش تفصیلات ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی جہالت، انتہا پسندی و تشدد اور عدم برداشت کی تشویش ناک علامت ہے جو معاشرے پر سیاہ داغ ہے۔ بلاتحقیق و تصدیق توہین مذہب سے جوڑ کر سری لنکن شہری کا ماورائے قانون ازخود ہجومی قتل جیسے بھیانک عمل کا اسلام جیسے امن و سلامتی اور انسانی جان کی حرمت و تقدس پر زور دینے والے دین کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ واقعہ دور جاہلیت کی ایک جھلک تازہ کرتا ہے جس کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام خاتم النبیین سیدنا محمدؐ کو رحمتہ اللعالمین بنا کر بھیجا۔ یہ سانحہ اسلامی تعلیمات و قوانین کی روشنی میں فساد فی الارض ہے جس کی اسلام میں سخت سزا ہے۔ ہجومی گھیرائو، جلائو، تشدد اور ازخود ماورائے قانون قتل خطرناک جرائم اور معاشرے کو تباہی کی جانب گامزن کرنے کا خطرناک سلسلہ ہے۔ ماضی قریب میں کئی ایسے ہی دردناک واقعات میں کئی بے گناہ انسان شرپسندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے، زندہ انسانوں کو بھٹی میں زندہ جلانا اور حافظ قرآن بھائیوں کو درندگی کا نشانہ بنا کر شہید کرنا، بھری عدالت میں آزادانہ قتل کرنا جیسے شرمناک واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ اب تازہ واقعہ سانحہ سیالکوٹ ہے جس میں ماضی کی طرح درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہجوم نے توہین مذہب کی آڑ میں بلا تصدیق و تحقیق ازخود سری لنکن شہری کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، شرانگیزی، تشدد و عدم برداشت اور قانون سے ماورا ان واقعات کی روک تھام کے لیے ریاستی قوانین و اقدامات ناکافی ہوچکے ہیں۔ ہر سانحہ کی طرح اس سانحہ میں بھی شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں پولیس و دیگر کی غفلت سامنے آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے عناصر آزادانہ تشدد، گھیرائو جلائو کا مظاہرہ کرتے رہے، ریاستی قوانین کو پامال کرتے رہے اور بے خوف ہو کر جنگل کے قانون کا منظر پیش کرتے رہے۔ یہ رویہ معاشرے کو انارکی و تشدد کی جانب لے جانے کی ایک جھلک ہے، اس سلسلے کو اگر نہ روکا گیا تو یہ دراز ہوسکتا ہے اور آئندہ اس قسم کے سانحات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے اور بغیر تصدیق و تحقیق قانون سے ماورا توہین مذہب سے جوڑ کر کوئی بھی بیگناہ انسان کو قتل کرنے کا متحرک بن سکتا ہے۔ حالیہ سانحہ کے حوالے سے تمام مکاتب فکر کے علما و دینی تنظیموں نے بھرپور مذمت کی ہے لیکن چوں کہ ایسے واقعات مذہب کی آڑ میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ محض وقتی مذمت کافی نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ علما کرام معاشرے میں موجود عدم برداشت، انتہا پسندی و تشدد کے خلاف میدان عمل میں آئیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مذہب اسلام کی انسانی جان کی حرمت امن و سلامتی کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ منظم انداز میں روشناس کرائیں کیوں کہ اسلام میں ایسے واقعات سے معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لیے واضح احکامات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے واضح ارشاد کیا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو تل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ (سورئہ المائدہ) اور ہجومی قتل جو پروپیگنڈہ اور بلاتحقیق ہو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی قرآنی ہدایت ہے کہ ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ پر نادانی سے جاپڑو پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے‘‘۔ (سورئہ الحجرات) حکومت انسانی جان و مال کی ذمے دار ہے، ایسے واقعات میں انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے لائحہ عمل ترتیب دینا ضروری ہوگیا ہے جس سے مذہبی فرقہ واریت، تشدد و ہجومی قتل کے واقعات کا سدباب ہوسکے۔ حکومت علما و دینی تنظیموں سے رابطے کو محفوظ بنائے اور ایسے عناصر کی سرگرمیوں کے ازالہ کے لیے علما کے حوالے سے جو توہین مذہب کے غلط استعمال کو معاشرے میں فساد و بے گناہوں کے قتل کا محرک بنانے کا سبب بنتے ہیں اگرچہ قوانین موجود ہیں تو توہین مذہب سے تعلق ہیں لیکن ان کے غلط استعمال کے رویہ پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے اور معاشرے میں ان قوانی کی موجودگی کے باوجود حکومتی اداروں کی غفلت و لاپروائی سے فرقہ وارانہ تشدد و انتہا پسندی کا زہر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے لیے گزشتہ ادوار میں حکومت و دینی جماعتوں، مدارس و علما کے باہمی تعاون و مشاورت سے ایک اہم دستاویز ’’نیشنل ایکشن پروگرام‘‘ کے نام سے عمل میں آئی تھی جس کا مقصد مذہبی فرقہ واریت، انتہا پسندی کا خاتمہ تھا جس کی اہمیت و ضرورت پر راقم الحروف نے تفصیلی کالم لکھا جو میری تازہ کتاب ’’کھلے دریچے‘‘ میں موجود ہے۔ ضرورت ہے کہ اس میں موجود نکات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔ یہ جب ہی ممکن ہے جب حکومت اس دستاویز میں شامل نکات پر عمل درآمد میں سنجیدہ و مخلص نظر آئے کیوں کہ ماضی کی تاریخ میں قرار داد مقاصد اور متفقہ نکات جیسے تاریخی دستاویزات پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ ایسے سانحات کی شکل میں نکل رہا ہے۔ حکومت مزید دیر نہ کرے ورنہ ملک و قوم اور اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔