حکومتی اداروں میں کرپشن۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ

661

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے پاکستان میں رشوت خوری اور بدعنوانی کے پھیلائو کے بارے میں عوامی تاثر کی ایک جائزہ رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس کے مطابق عوام پولیس اور عدلیہ کو کرپٹ ترین اداروں میں شامل سمجھتے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عوام کی اکثریت احتساب کے عمل سے بھی مطمئن نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے جاری کردہ بیان کے مطابق ادارے کی جانب سے گزشتہ 20 برسوں کے دوران پانچ مرتبہ کرپشن کے متعلق ایسا ہی سروے کرایا جاچکا ہے۔ 2021ء میں چاروں صوبوں میں کرائے جانے والے سروے کے مطابق شہریوں کی اکثریت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ سرکاری شعبے میں کرپشن بہت زیادہ ہے جس میں پولیس، عدلیہ، ٹھیکوں اور ٹینڈر جاری کرنے کا شعبہ، صحت کا شعبہ سب سے آگے ہے۔ عوام کو سہولتیں اور خدمات فراہم کرنے والے اداروں میں کام کرانے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے اسباب کے بارے میں لوگوں کی رائے یہ ہے کہ احتساب کے کمزور نظام کی وجہ سے رشوت خوری اور بدعنوانی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے ماضی میں بھی اسی قسم کی رپورٹیں اور جائزے شائع ہوتے رہے ہیں۔ تقریباً تین عشروں سے پاکستانی سیاسی بیانیے کا مرکزی موضوع بدعنوانی، کمیشن خوری اور رشوت کا خاتمہ بن چکا ہے۔ کوئی بھی حکومت ایسی نہیں رہی ہے جس پر بدعنوانی اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے دولت بنانے کا الزام نہ ہو۔ اس وجہ سے عالمی ادارے کے پاکستان کے شعبے کی جانب سے عوامی رائے عامہ کا موجودہ جائزہ کوئی انکشاف نہیں ہے۔ رشوت خوری اور حکومتی اختیارات کے ذریعے دولت کا حصول اتنا عام ہوچکا ہے جس نے یہ تاثر پختہ کردیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایمانداری اور دیانت داری کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اخلاقی بحران اتنی گہرائی میں اتر چکا ہے کہ ہم بہ حیثیت طبقات اور گروہوں کے ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگے ہیں کہ کون سا طبقہ کم بدعنوان ہے اور کون زیادہ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ریاست کے وہ ستون جن پر قومی عمارت تعمیر ہوتی ہے، وہی سب سے زیادہ بدعنوان سمجھے جاتے ہیں۔ یہ بہت ہی ہولناک بات ہے کہ عوام پولیس اور عدلیہ کو سب سے زیادہ بدعنوان اور رشوت خور سمجھتے ہیں جن کو تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ پولیس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شہری کو مزاحمت کرنے پر کارسرکار میں مداخلت کا الزام لگا کر کارروائی کرسکتی ہے، اس طرح عدلیہ کو پولیس اور فوج پر بھی فوقیت حاصل ہے اور عدلیہ کا کام تو یہ بھی ہے کہ وہ ریاستی اور حکومتی اداروں کے مقابلے میں عام شہری کی دادرسی کرے، لیکن خلق خدا ان اداروں کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے اس کی ایک جھلک جائزہ رپورٹ میں نظر آرہی ہے۔ قومی سطح پر صرف اس بات کا مقابلہ جاری ہے کہ سیاست دان زیادہ کرپٹ ہیں یا غیر سیاسی طاقتیں۔ احتساب کے تمام سرکاری اور ریاستی اداروں پر بھی شہریوں نے بے اعتباری ظاہر کردی ہے۔سرکاری اداروں کے عمال کی کرپشن اور رشوت خوری نے ہمیں مجرموں کی قوم میں تبدیل کردیا ہے۔ اب نہ کسی کو سیاسی قیادت پر اعتماد ہے، نہ بیورو کریسی اور عدلیہ پر۔ یہ سب کو نظر آرہا ہے کہ حکومت اور ریاست سے تعلق رکھنے والے افراد چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ان کی دولت میں بے تحاشا اضافہ نظر آرہا ہے جبکہ عام غریب اور متوسط طبقے کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔ قومی منظرنامہ اتنا سنگین ہے کہ کسی بھی جگہ سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، مستقبل سے مایوسی نے شہریوں کی اکثریت کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے، جس کی وجہ سے خودکشی کی وارداتوں کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی رپورٹ صرف ایک پہلو سے تعلق رکھتی ہے جو عام شہریوں کے مشاہدے میں ہے، ورنہ حقیقت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ اب تک یہ بات سمجھی جاتی رہی ہے کہ سرکاری اہلکاروں اور ملازموں کی کم اجرتیں رشوت خوری کا سبب ہیں، لیکن سیاست دانوں اور افسر شاہی کے گٹھ جوڑ نے تنخواہوں اور مراعات میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ اس اضافے کے باوجود رشوت خوری اور ناجائز آمدنی کے رواج پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری سطح پر رشوت خوری اور بدعنوانی کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں جرائم پیشہ مافیا نے تسلط اختیار کرلیا ہے، جس نے اصلاح کے تمام راستے مسدود کردیے ہیں۔ اب قومی زندگی پر ایسا طبقہ غالب اور طاقتور ہوگیا ہے۔ بدعنوانی، رشوت خوری اور ناجائز ذرائع سے آمدنی کا سب سے بڑا سبب زندگی کے مقصد اور آخرت کی جواب دہی کے خوف کا ختم ہوجانا، پیسے کا حصول زندگی کا نصب العین بن چکا ہے۔ جس شخص کا کوئی نصب العین نہ ہو اس کے پاس اخلاق کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست بیمار ہوگئی ہے، جب قومی زندگی کا علاج کرنے والے ہی بیمار ہوں تو تباہی مقدر ہوجاتی ہے۔