سود کا مکمل خاتمہ ضروری ہے

352

وفاقی شریعت عدالت میں سودی نظام کے مکمل خاتمے کے حوالے سے دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔ تقریباً تین عشرے ہوگئے ہیں۔ سود کے مکمل خاتمے کی باتیں حکومتی سطح پر کی جارہی ہیں لیکن ہر حکومت چاہے وہ فوجی ہو یا سیاسی زبانی دعوئوں سے آگے نہیں بڑھتی۔ یہ مجرمانہ لیت و لعل اس امر کے باوجود جاری ہے کہ اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ سودی معیشت ظلم و استحصال کا سب سے بڑا آلہ ہے۔ اس بارے میں قرآن و حدیث میں سخت الفاظ میں خبردار کیا گیا ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر سود کے خاتمے کے لیے کوئی عملی اقدام کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ ریاستی اور اجتماعی سطح پر ہمارا قومی طرزِ عمل اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو دھوکا دینے پر مشتمل نظر آتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق متحرک ہوئے ہیں اور وفاقی شریعت عدالت میں درخواست دائر کی ہے تا کہ حکومت پر دبائو پڑے اور وہ عملی اقدامات کرے۔ وفاقی شریعت عدالت کی موجودہ سماعت میں اس حوالے سے مضبوط دلائل دیے گئے۔ معروف قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا ہے اور انہوں نے اس بارے میں دوٹوک رائے دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ سود ختم کرنے کے اقدامات کرے، آئین کے مطابق ریاست ہر طرح کے استحصال کے خاتمے کی پابند ہے اور سود استحصال کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق خود عدالت میں پیش ہوئے۔ وفاقی شریعت عدالت میں سود کے خاتمے کے لیے درخواست لے کر جانے کی اہمیت میں اس لیے بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے وزیراعظم مسلسل اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست ہے۔ اس مقصد کے لیے رحمت اللعالمین اتھارٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ وہ اس بات سے واقف ہوں گے کہ فتح مکہ کے بعد اپنے آخری حج میں اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے نبی کریمؐ جو احکامات دیے تھے ان میں سب سے اہم حکم یہ تھا کہ آج سے ہر قسم کے سودی مطالبات باطل اور ناجائز قرار دیے جاتے ہیں اور اس کی عملی مثال دیتے ہوئے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سودی مطالبات کو غیر قانونی قرار دینے کا اعلان کیا۔ قرآن نے صاف اور واضح الفاظ میں اعلان کردیا کہ اب جبکہ سود کو حرام قرار دے دیا گیا ہے کوئی شخص سودی کاروبار رکھے گا تو وہ بغاوت کا مجرم ہوگا۔ اس کا یہ عمل اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔ اتنے واضح اعلانات کے باوجود عذر ہائے لنگ پیش کرکے سودی نظام کو جاری رکھا جارہا ہے، متبادل اسلامی بینکاری اور غیر سودی معیشت کے تجربات ہوچکے ہیں اب اس کے سوا کوئی بہانہ موجود نہیں ہے کہ ہماری معیشت عالمی سودی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلام ہے۔ اس لیے سودی معیشت کے خاتمے کے لیے عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی کی جنگ بھی لڑنی ہوگی۔ عالمی استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی سے آزادی کی جدوجہد ایک شرعی فریضہ بھی ہے اور اس کے بغیر ہم اپنے ایمان کے تقاضوں کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک اہم قومی، ملی اور دینی مسئلے پر وفاقی شریعت عدالت میں سماعت ہورہی ہے۔ اس سماعت کی تفصیلات قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرح نشر اور شائع نہیں کی جو اس مسئلے کی اہمیت کا تقاضا ہے۔ ہمارے تمام قومی مسائل میں مہنگائی اور بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اس ظلم کا مجرم یہ عالمی سودی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام ہے۔ ماہرین معیشت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شرح سود میں اضافہ ظلم ہے، معاشی تباہی کا سبب ہے تو آخر وہ اس بات کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ سود کے مکمل خاتمے کے بغیر ظلم و استحصال ختم نہیں ہوسکتا۔ وفاقی شریعت عدالت میں بطور فریق مقدمہ پیش کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ سودی نظام کی وجہ سے معیشت ترقی نہیں کررہی ہے، ملک کو 1957 میں 37 کروڑ ڈالر سود پر قرض ملا اس کی وجہ سے آج تک قوم مقروض ہے۔ شریعت عدالت نے ماضی میں سود کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ جب وہ خیبر پختون خوا میں وزیرخزانہ تھے تو تین سال میں صوبے کو سود اور قرض سے پاک کردیا تھا۔ اسی زمانے میں انہوں نے جرمنی کے سرکاری بینک کے سربراہ کو سود سے پاک نظام پر تین گھنٹے کی بریفنگ دی تھی۔ جاپان سود سے پاک معیشت کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں کوئی منصوبہ بھی نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومتی وکلا کی جانب سے ابھی تک وہی پرانے فرسودہ دلائل دیے جارہے ہیں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کے دور میں دیے جاتے تھے۔ سود کی حرمت اور حکومت کے فرائض کے بارے میں عدالتی معاون اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سود کا خاتمہ حکومت کے لیے لازم ہوچکا ہے۔ آئین کے مطابق ریاست 10 سال میں ہر طرح کے استحصال کے خاتمے کی پابند تھی، سود بھی استحصال کی ہی ایک قسم ہے۔ عدالتی دائرہ اختیار صرف 1980 سے 1990 تک نہیں تھا، 1990 سے شریعت عدالت قوانین کو غیر اسلامی قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے، قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ سود کے استحصالی اور غلط کردار کی دلیل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیسے کو خریدا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ فروخت ہوسکتا ہے ایک ہزار دے کر 2 ہزار مانگنا ربوا (سود) کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالتی معاون کی حیثیت سے اپنے موقف کے حق میں مزید دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کے دیباچے میں کہا گیا ہے کہ منتخب جمہوری حکومتیں تمام قوانین شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے بنائیں گی، کوئی حکومت شرعی حدود سے تجاوز کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، پاکستان واحد ملک ہے جس نے اسلامی جمہوری ریاست کا تصور دیا ہے۔ معاملات میں جدت اختیار کرنے کا مقصد ہرگز اسلامی حدود سے تجاوز کرنا نہیں ہے۔ ریاست پر لازم ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو ربوا (سود) ختم کرکے زکوٰۃ و عشر کا نظام نافذ کرے۔ وفاقی شریعت عدالت میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے حرمت سود اور اس کے استحصالی کردار آئین کے تقاضوں اور ریاست کے فرائض کے حوالے سے مدلل گفتگو کی ہے، اس بارے میں قومی سطح پر ہر طبقے کو ساتھ لے کر یعنی جس میں اہل دانش اور عام افراد مل کر جدوجہد کریں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اصل مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر حکومت نے سودی معیشت کا مکروہ نظام جاری رکھا ہوا ہے۔ وفاقی شریعت عدالت 1991ء میں ایک فیصلہ دے چکی ہے لیکن اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے اس وقت کی میاں نواز شریف کی حکومت اس فیصلے کے خلاف عدالت میں چلی گئی۔ یہ طرزِ عمل نواز شریف کی حکومت برطرف کرنے والے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بھی جاری رکھا اور قوم اب تک استحصالی سامراجی مکروہ سودی نظام کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔