جو کیا ہے وہ سب ختم کرنا ہوگا

800

غیر قانونی تجاوزات اور فلاحی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی زمینوں کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ایک بار پھرکہا ہے کہ فوج نے دفاعی سرگرمیوں کے لیے لی گئی زمین پر کاروبار شروع کردیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمین تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے متعلق معاملے کی سماعت کراچی رجسٹری میں کی۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری دفاع کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیاں شروع کردی ہیں، شادی ہالز بنا دیے، سنیما بنا دیا، ہائوسنگ سوسائٹیز بنادیں، کیا یہ دفاع کے لیے ہیں؟ ایک کرنل اور میجر بادشاہ بنا ہوا ہے، وہ جو چاہتے ہیں، ہوجاتا ہے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس تحریری رپورٹ ہے؟ جس پر سیکرٹری دفاع نے تحریری رپورٹ جمع کرانے کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے مہلت طلب کی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو زمین دی گئی ہے اور آپ زمین پر کیا چلا رہے ہیں! آپ جائیں اور تمام چیفس کو بتادیں کہ دفاعی مقاصد کی زمین کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی، جس پر سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ جسٹس قاضی امین نے سیکرٹری دفاع کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ جو کیا ہے وہ سب ختم کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام فوجی چھائونیوں میں جائیں اور بتائیں کہ زمین صرف اسٹرے ٹیجک مقاصد کے لیے استعمال ہوگی، مسرور بیس کیماڑی اور فیصل بیس… سب کمرشل کیا ہوا ہے، سائن بورڈز ہٹانے کا کہا تو اس کے پیچھے بڑی بڑی بلڈنگز بنادی گئیں۔ سارے عسکری ہائوس نے سوسائٹیز بنائی ہیں، کیا کررہے ہیں! عسکری فور دیکھیں، بڑے بڑے اشتہار لگا دیے، بعض اوقات تو لگتا ہے عدالتی حکم کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ بتایا جائے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کی کیا پالیسی ہے؟ اس موقع پر سیکرٹری دفاع نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان متفق ہیں کہ ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیاں نہیں ہوں گی، مجھے کہا گیا ہے عدالت کو یقین دہانی کرائیں کہ مزید کوئی کمرشل سرگرمی نہیں ہوگی۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع کو یہی بیان تحریری طور پر جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے دستخط سے رپورٹ اور پالیسی پیش کی جائے۔ عدالتِ عظمیٰ نے ملٹری لینڈ پر جاری کمرشل سرگرمیوں سے متعلق پالیسی پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہوگیا ہے اس کا کیا ہوگا؟ یہ کیسے ٹھیک کریں گے؟ سیکرٹری دفاع نے جواب دیا کہ جو کچھ ہوچکا، اسے ٹھیک کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے حکم نامے میں قرار دیا ہے کہ کنٹونمنٹ کی زمینوں پر ہائوسنگ اور کمرشل سرگرمیاں کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 اور لینڈ اکیوزیشن ایکٹ 1937 کی خلاف ورزی ہیں۔ دفاعی سرگرمیوں کے لیے لی گئی زمین پر کاروبار ایک اہم اور دیرینہ موضوع ہے جس پر کئی برسوں سے عدالت میں وقتاً فوقتاً بات ہوتی رہتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کراچی کا انفرا اسٹرکچر بحال کرنے اور اس کی حالت کو بہتر کرنے کے لیے مستقل احکامات جاری کررہے ہیں اور ہر سماعت میں اس کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ تجاوزات کے خاتمے کے لیے مختلف فیصلوں پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے۔ نسلہ ٹاور اور تجوری ہائٹس کی مثال ہمارے سامنے ہے، اسی سماعت میں انہوں نے ایک بار پھر نسلہ ٹاور کو فوری اور مکمل گرانے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ سیکرٹری دفاع نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان متفق ہیں کہ ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیاں نہیں ہوں گی، لیکن عدالت نے تو کہا ہے کہ ’’جو کیا ہے وہ سب ختم کرنا ہوگا‘‘، اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آنے والے دنوں میں کیا عملی صورتِ حال ہوگی۔ لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کراچی کو تباہ کرنے والوں اور غیر قانونی تعمیرات کے ذمے داران کے خلاف بھی ویسے ہی تیز اقدامات کیے جائیں جیسے نسلہ ٹاور کو گرانے کے معاملے میں ہوئی ہے۔ کیونکہ غیر قانونی تعمیرات چند دنوں میں یا اچانک نہیں بلکہ برسوں میں ہوئی ہیں، اور یہ کام پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور حکومت کی سرپرستی میں ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ عدالت عظمیٰ تو متحرک ہے، ریاست کے دیگر ادارروں کو بھی شہر کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔