ذاتی و گروہی مفادات کی وجہ سے مزدور انجمنیں زوال کا شکار ہیں

660

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)مزدور انجمنوں کے زوال کی وجہ مزدور لیڈر شپ کایونینز کو ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرنا‘عالمی استعمار کے ایجنڈے پر این جی اوز کا غلبہ‘ متبادل لیڈرشپ کا راستہ روکنا‘ مزدوروں کو حقوق کی آگہی سے محروم رکھنا اور کم علمی ودیگر عوامل شامل ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی‘ انٹرنیشنل یونین آف فوڈز سائوتھ ایشیا کے ڈائریکٹر قمر الحسن ‘سندھ لیبر فیڈریشن کے صدر محمد شفیق غوری اورآل پاکستان فیڈریشن آف یونائٹیڈ ٹریڈ یونینز کے مرکزی جنرل سیکرٹری ضیا سید نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں دیا کہ ’’ پاکستان میں مزدور انجمنوں کے زوال کے اسباب پرکیا ہیں؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ لیڈر شپ نے ٹریڈ یونین کو اپنے ذاتی اور گروہی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے‘ اجتماعی مقاصد کو نظر انداز کیا ہے‘ عالمی استعماری ایجنڈے پر این جی اوز کی وجہ سے کام کے اصل مقاصد کو محو کردیاگیا اور مفادات عزیز ہوگئے‘ لیڈر شپ خوداپنی ذات میں انجمن ہے‘ متبادل لیڈر شپ کو راستہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی متبادل لیڈر شپ کی تربیت ، سرپرستی اورحوصلہ افزائی کی گئی‘ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کرپٹ سیاست دانوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر مزدور تحریک کو نقصان پہنچایا گیا ‘ گورننگ باڈیز، بورڈز اور مختلف مانیٹرنگ کمیٹیوں میں حکومت، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی چاکری کرنے والوں نے محض چند روپوں کے لیے ٹریڈ یونین کوبہت نقصان پہنچایا ہے‘اس وقت ملک پر ایک بدترین سرمایہ داری نظام مسلط ہے جسے سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور افسر شاہی کے ٹرائیکانے ایک کلب کی صورت میں قائم رکھا ہے‘ مختلف مزدور تنظیموں کی لیڈر شپ نے ظلم کے اس نظام کو سہارا دیا ہوا ہے‘ مزدور اس کے مقابلے میں منظم اور متحد نہیں ہیں‘لیبر اورسماجی تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کرنے والے ادارے اس نظام کی سرپرستی میں اپنے فرائض کی ادائیگی سے انحراف کرتے ہوئے سرمایہ داروں ، کارخانہ داروں کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں اور رشوت اور کرپشن کے ذریعے مزوروں کو حقوق ومراعات سے محروم کرکے ایک بیگار کیپ میں چھوڑ دیا جاتاہے ‘ بدترین مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ اور خوفزدہ مزدوروں نے ان حالات سے سمجھوتا کرلیا ہے ‘ مزدور انجمن سازی کے حق سے محروم ہیں‘ لیبر کے ادارے اور لیبر عدالتیں مزدور کی آواز نہیں سن رہیں ‘ معاوضہ جات سے مزدور بھوک اور افلاس میں مبتلا ہیں ‘ بیماروں اور کمزور صحت کے ساتھ بھی محض اس لیے کام کررہے ہیںکہ یہ سہارا بھی نہ رہا تو 2 وقت کی روٹی بھی نہیں ملے گی‘مزدوروں کی صحت اور علاج کا کوئی انتظام نہیں ہے ‘ ان کے بچے جو اس قوم کا مستقبل ہیں تعلیم سے محروم ہیں‘لیبر قوانین سے ساڑھے 7 کروڑ مزدوروں میں سے 40 لاکھ سے بھی کم مزدور مستفیدہوتے ہیں اور سماجی بہبودکے قوانین کا اطلاق تو اس سے بھی کم ہے ‘ ایک کروڑ سے زاید مزدور بیگار کیپ میں ہیں ‘یہ لیبر اور سماجی تحفظ کے قوانین کے حقوق اور مراعات سے مکمل محروم ہیں‘ شعورو ادراک کی کمی اور نظریے اور مقصد کا نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے ‘ علاقائی اور سیاسی بنیاد پرتقسیم گروہ بندی بھی نظریاتی جدوجہد کو نقصان پہنچاتی ہے اور نظریے سے محروم افراد اپنے مفادات کے علاوہ کسی کام کے نہیں ہیں۔ قمر الحسن نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد اس ملک کی سیاست ، معیشت اور سماجی حالات جس نہج سے گزررہے ہیں اس کی روشنی میں بہتری کے حالات ہی ناممکن ہیں‘موضوع نے اس بات کا تو فیصلہ کرہی دیا ہے کہ محنت کشوں کی تنظیموں کے حالات زوال پذیر ہیں جوکہ ایک حقیقت ہے ۔ اسباب پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ جو اسباب کسی بھی معاشرے کی تنزلی میں کردار ادا کرتے ہیں وہی اسباب یہاں بھی نظر آئیں گے ‘ حکومتوں کی ترجیحات میں جمہوری اداروں کا فروغ شامل نہیں ہوتا‘ سیاسی جماعتوں کا رویہ غیر جمہوری ہوتا ہے‘ بین الاقوامی صورتحال اور سرمایہ داری نظام کا فروغ معاشرے میں عمومی طورپر مزدور تنظیموں کو قبول نہیں کرتا‘ مزدور تنظیمیں نظریاتی طور پرتنزلی کا شکار ہیں‘ قومی سطح پر لیڈر شپ کا انحطاط، پیشہ ورانہ نقطہ نظر کی غیر موجودگی ، تعلیم وتربیت کا فقدان بھی اہم ہے ‘ ملک میں ٹریڈ یونینز نے معاشرے کے دوسرے طبقات سے ناطہ توڑ لیا ہے اور جمہوری تحریکوں وجمہوری عمل سے بالکل الگ تھلگ ہوکر رہ گئی ہیں‘ ایک تنزل پذیر معاشرے میں سیاسی وجمہوری تحریک سے مزدور تنظیموں کا الگ ہونا ہی ان کی تنزلی کا سب سے بڑا سبب ہوسکتا ہے ۔ محمد شفیق غوری نے کہا کہ پاکستان میں مزدور تحریک اس وقت زوال پذیری کی جانب تیزی سے گامزن ہے‘ برصغیر ہندوپاک کی تقسیم سے قبل اس خطے میں مزدور تحریک کی اپنی ایک روشن تاریخ ہے لیکن قیام پاکستان کے وقت صرف 4 فیصد صنعتی شعبہ ہمیں ورثہ میں حاصل ہوا، جبکہ سرکاری شعبے میں ریلوے، پوسٹ آفس و ٹیلیفون کے محکموں میں ٹریڈ یونین کا وجود تھا‘ اس وقت انڈین ٹریڈ یونین ایکٹ 1926ء کے تحت انجمن سازی کا دائرہ کار بہت وسیع تھا اور غیر رسمی شعبے میں بھی جنرل ٹریڈ یونین کے قیام کی اجازت تھی۔ بعدازاں ہمارے ملک میں صنعتی تعلقات آرڈیننس 1969ء میں بذریعہ قانون سازی ٹریڈ یونین کو صرف منظم صنعتی و تجارتی اداروں میں محدود کردیا گیا۔قیام پاکستان کے وقت ہی ریاست نے یہ طے کرلیا تھا کہ مزدوروں کی انجمن سازی کو فروغ دینے کے لیے کسی قسم کے قانونی و عملی اقدامات کی سرپرستی نہیں کی جائے گی دوسری جانب جو چند صنعت کار تھے‘ وہ بھی انجمن سازی کو کسی بھی طرح تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس طرح ریاست کی پالیسی سرکاری اہلکاروں کا رویہ اور ان کا صنعت کاروں سے گٹھ جوڑ روز بروز منظم بنیادوں پر مستحکم ہوتا چلا گیا لہٰذا جب ملک کا مزدور ایسی بدترین صورت حال کا سامنا کررہا ہو‘ اوپر سے مہنگائی و بیروزگاری کا طوفان ہو تو ٹریڈ یونین کو منظم و مستحکم کرنا تو دور کی بات ہے وہ تو اپنے قانونی تحفظ یافتہ حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے بھی خوف کا شکار ہوتا ہے‘ اس وقت پورے ملک میں 8ہزارٹریڈ یونین صنعتی و تجارتی شعبے میں قائم ہیں جبکہ ان میں سے تقریباً 15سو ٹریڈ یونین (CBA) اجتماعی سوداکاری کا حق رکھتی ہیں‘ اگر کارخانے کی سطح پر ٹریڈ یونین موجود بھی ہے تو اس کی سرگرمیاں انتہائی محدود ہیں البتہ کبھی ان کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے اور کبھی این جی اوز کی طرف رخ اختیار کرنا پڑتا ہے‘ اس طرح وہ اپنی آزادی و خود مختاری بالائے طاق رکھتے ہوئے محتاج ہوجاتی ہیں‘ علاوہ ازیں آج کی ٹریڈ یونین اس جدید دور میں بھی اپنے قانونی، معاشی و سیاسی حقوق سے آگاہی حاصل کرنے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتی ہیں لہٰذا اس تمام تر معروضی صورت حال کے تناظر میں ٹریڈ یونین کی بقا صرف اور صرف حقیقی و اصول پسند ٹریڈ یونین لیڈر شپ کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ ضیا سید نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے لیبر ونگز میں عہدوں پر ایسے افراد کو تعینات کیا جاتا ہے جو کہ لیبر اور ٹریڈ یونینز کے ملکی ، عالمی قوانین اورصنعتوں کی صورتحال سے ناواقف ہوتے ہیں ‘ ٹریڈ یونینز کی قیادت میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مزدور قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا اور بہتر پالیسیوں کے لیے کوئی بھی حکومت اور بیشتر سیاسی جماعتیں لیبر کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں سے بات چیت کرنے کو ترجیح نہیں دیتے جس سے سرکاری افسران کی ملی بھگت اور عدم دلچسپی کی وجہ سے قانون میں موجود مراعات کے لیے بھی جدوجہد کی ضرورت ہے‘ سیاسی جماعتوں نے مزدور کے حقوق کا نعرہ لگا کر ہر دور میں ووٹ لے کران کا استحصال کرنا اپنی ذمے داری سمجھا ہے‘ آپس کے اختلافات، پسند نا پسند اور میں نامانوں کی پالیسی پر صرف سیاست دان، حکمران یا بیوروکریسی ہی عمل پیرا نہیں بلکہ ٹریڈ یونینز کی قیادت بھی اس میں شامل ہے‘ پاکستان میں کسی بھی حکومت نے مزدور دوست پالیسی نہیں بنائیں اور نہ ہی ٹریڈ یونینز کو پھلنے پھولنے دیا بلکہ ٹریڈ یونینز کے کرداروں کی دوغلی، غیر ذمے درانہ اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی پالیسی سے ہر سرمایہ دار، وڈیرے اور سیاسی آقاؤں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔