شوگر نئی نسل کےلئے خطرے کی گھنٹی ،پاکستان میں بھی مریض بڑھ رہے ہیں 

316

پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی شوگر کے بڑھتے ہوئے مرض کو نئی نسل کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بچاواور بالخصوص نوجوان نسل کو شوگر جیسی بیماری سے محفوظ رکھنے کیلئے آگاہی ، روک تھام اور علاج معالجے کے لئے موثر اقدامات کرنا ہونگے اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ نرسز والائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کے تدریسی کورس میں ذیابیطس کے بارے ضروری معلومات اور مریض کی نگہداشت کے متعلق خصوصی مضمون شامل کیا جائے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی یوم ذیابیطس کی مناسبت سے لاہور جنرل ہسپتال کے شوگر کلینک میں مریضوں کو آگاہی لیکچر دیتے ہوئے کیا۔اس موقع پرپروفیسر آف میڈیسن و شوگر سپیشلسٹ پروفیسر ڈاکٹر طاہر صدیق، ڈاکٹر مریم خالد، ڈاکٹر محمد مقصود ، ڈاکٹر اظہر اعوان اور ڈاکٹر سلمان شکیل نے کہا کہ شوگر کی بنیادی وجوہات میں موٹاپا، غیر صحت مندانہ طرز زندگی، خاندان میں شوگر کے مرض کا عام ہونا، غیر متوازن غذا، بلڈ پریشر، خون میں چکنائی کا عدم توازن اور بڑھتی ہوئی عمر شامل ہیں لہذا لوگوں کو احتیاطی تدابیر اور حفظان صحت کے بنیادی اصولوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق نابینا پن، گردوں کے ناکارہ ہونے، دل کے دورے،فالج اور پاو ¿ں میں کنگرین کی بڑی وجہ بھی ذیابیطس ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بڑی عمر کے مرد و خواتین کے ساتھ اب نوجوان وبچے بھی اس مرض میں مبتلاہورہے ہیں جنہیں تمام عمر اپنی زندگی کی حفاظت کیلئے ادویات کااستعمال کرنا پڑتاہے جبکہ یہ زندگی بھی معمول سے ہٹ کر مختلف مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر الفرید ظفر اور پروفیسر طاہر صدیق کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر کی ایجاد نے جہاں دنیا بھر میں انقلاب برپاکیا اور تیزی سے ترقی ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگیوں میں ٹھہراوبھی آگیا ہے، جسمانی مشقت نہ ہونے سے وزن میں اضافہ اورفاسٹ فوڈ کا استعمال بڑھنے سے آج دنیا کی کثیر آبادی شوگر کے مرض میں مبتلاہے جسے درجنوں بیماریوں کی ماںبھی کہا جاتاہے۔ پرنسپل پی جی ایم آئی نے مزید کہا کہ شوگر کے مرض پر قابو پانے کیلئے زبانی جمع تفریق کی بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینا ہو گی ، لوگوں کو اپنی زندگیوں میں بدلاو ¿ لانا ہو گا اور شہریوں کو اپنی مصروفیات زندگی میں جسمانی ورزش ،واک، چہل قدمی کیلئے وقت نکالنا ناگزیر ہے،” جنک فوڈ” سے پرہیز اور کم خوراک کی عادات کو اپنانا چاہئے تاکہ جسم کو غیرضروری کیلوریز اور چکنائی سے بچا کر موٹا پا ، وزن میں اضافہ اور ذیابیطس کے مرض سے محفوظ رکھا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ہسپتال میں علاج معالجے کا سوال ہے اس بارے سب ہی ہسپتال شوگر کے مرض کی تشخیص و علاج کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں تاہم متعلقہ شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹرز ،نرسز اور پیرا میڈیکس کو شوگر کے حوالے سے ضروری معلومات وٹریننگ کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ شوگر کے مریض کے علاج کو موثر انداز میں سر انجام دے سکیں۔ پروفیسر طاہرصدیق نے کہا کہ وراثت میں جائیداد ہی نہیں شوگر بھی حصہ میں ملتی ہے اور اس مرض سے بچاو ¿کیلئے گھریلو کچن آباد کرنا ہونگے تاکہ ٹائپ ٹوذیابیطس کو خطرناک بیماری میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے جس میں مریض کے ہاتھوں و پیروں میں انفیکشن و گنگرین بھی شامل ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات مریض کو اپنے اعضاءسے محروم ہونا پڑتا ہے۔ ذیابیطس کا مرض آنکھوں پر برے اثرات مرتب کرتا ہے ،نابینا پن کی ایک وجہ شوگر بھی ہے۔ پروفیسر طاہر صدیق نے کہا کہ لاکھوں مریض اس بیماری سے لاعلم ہیں لہذا سال میں 2بار خون کی سکریننگ کروائی جائے تاکہ بروقت تشخیص ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور جنرل ہسپتال میں سوموار تا ہفتہ شوگر کے مریضوں کے طبی معائنے کیلئے سینئر ڈاکٹرز موجودہوتے ہیں اور تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈرکھا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر حاملہ خواتین میں شوگر کا مرض ہو تو اسے اپنے معالج سے فوری رجوع کرنا چاہئے تاکہ دوران زچگی ماں و بچہ پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں۔