پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ کب ہوگا؟

451

سائرن یا خطرے کی گھنٹی خبر دار، بیدار اور ہوشیار کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن اگر سائرن اور گھنٹی کی آواز پر بھی لوگ چونک کے نہ اٹھیں اور لپک کے خود کو محفوظ نہ کریں تو بالآخر سائرن خاموش اور گھنٹی بے جان ہوجاتی ہے۔ یہی حال انسانی ضمیر کا ہے کہ جو بالآخر مردہ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کرپشن کے خلاف مہم بھی بالآخر بے اثر ہوچکی ہے۔ پاناما کے بعد اب پنڈورا۔۔۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ۔ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد
تلخ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن نے ہمارا سارا نظام کھوکھلا کردیا ہے۔ اوپر سے نیچے تک کرپشن کے منحوس سائے روز بروز بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارا پورا نظام کرپشن زدہ ہے۔ یہاں کرپشن کی ہر قسم موجود بھی ہے اور ترقی پزیر بھی۔ مثلاً مالیاتی کرپشن، تجارتی کرپشن، سیاسی کرپشن، پارلیمانی کرپشن، اخلاقی کرپشن، روحانی کرپشن، معاشرتی کرپشن، انتخابی کرپشن، عدالتی کرپشن، تعلیمی کرپشن، امتحانی کرپشن، انتظامی کرپشن اور دفتری کرپشن وغیرہ
اس ملک کے غریب اور بے بس شہریوں کے چاروں طرف پھندے لگے ہوئے ہیں اور کرپٹ نظام انہیں مسلسل چیلنج کررہا ہے کہ بچ سکتے ہو تو بچ کے دکھائو۔ ہماری یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہمیں اکثر اپنے ملک کی کرپشن کی خبریں باہر سے ملتی ہیں۔ ہمارے اپنے احتسابی ادارے نااہل ہی نہیں، کرپٹ بھی ہیں اور ساری کرپشن، ان کی ملی بھگت، بندر بانٹ اور چھتر چھائوں میں ہوتی ہے۔ یہاں ایف بی آر، نیب، اینٹی کرپشن، پبلک اکائونٹس کمیٹیاں، آئی بی، ایف آئی اے اور نجانے کون کون سے ادارے اور کون سی ایجنسیاں موجود ہیں لیکن ان کی مثال خربوزوں کے کھیت کے گیدڑ رکھوالے والا ہے۔
پاناما لیکس سامنے آئیں، سیاست دانوں، سول و ملٹری افسروں، تاجروں، عدلیہ سمیت 436 افراد کے نام تھے۔ اربوں روپے کی کرپشن تھی۔ جماعت اسلامی اور سراج الحق ان سب کے خلاف عدلیہ میں گئے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہم اتنا بڑا پنڈورا بکس نہیں کھول سکتے۔ آپ کی پٹیشن ہمارے پاس محفوظ رہے گی۔ جب ہم موجودہ افراد کے خلاف ٹرائل اور فیصلہ سے فارغ ہونگے، تب آپ کی پٹیشن کو فریزر سے نکال کر مائیکروویو میں رکھ کر روبہ عمل لائیں گے۔ جب یہ مرحلہ آیا تو ہمارے متوجہ کرنے پر عدالت نے بتایا کہ ان افراد کے خلاف عدالت سوموٹو ایکشن لے گی لیکن یہ بھی نہ ہوسکا۔ گویا کہ پاناما لیکس کے انکشافات صدا بصحرا ثابت ہوئے، اب پنڈورا پیپرز سامنے آئے ہیں۔ اس میں 700 پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت سے ہم اس میدان میں سبقت لے گئے ہیںکہ بڑا ملک ہونے کے باوجود اس کے چار سو افراد ہی بارگاہ بدعنوانی میں شرف بار یابی حاصل کرسکے ہیں جبکہ ہمارے سات سو افراد نے یہ ریس جیت لی ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان کی پوری تاریخ کرپشن کے خلاف لڑتے ہوئے گزری ہے۔ 1982 میں جماعت اسلامی نے تحریک اصلاح معیشت کا آغاز کیا۔ جس کے دوران کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور رشوت ستانی کے انسداد کے لیے ٹھوس مطالبات تھے۔ جن میں ذمے داروں کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ 1990 کی صوبائی اسمبلی میں راقم نے کرپشن کے خاتمہ کے لیے انسداد کرپشن بل بطور پرائیویٹ ممبرز بل جمع کروایا 92ء میں جماعت اسلامی نے ملک گیر انسداد رشوت ستانی مہم چلائی اور رشوت کے خاتمہ کے لیے 20نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔ 24جون 1996 کو قاضی حسین احمدؒ کی قیادت میں جماعت اسلامی نے بے نظیر حکومت کی کرپشن کے خلاف راولپنڈی میں پہلا دھرنا دیا۔ پولیس کی اندھا دھند فائرنگ سے چار کارکن شہید اور 70 کے قریب زخمی ہوگئے۔ 6اگست 96کو کرپشن کے خاتمہ اور احتساب کے موثر نظام کے لیے امیر جماعت کی صدارت میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی۔ 24اگست 96کو قاضی حسین احمدؒ نے کرپشن اور لوٹ کھسوٹ پر سینیٹ سے احتجاجاً استعفا دے دیا اور ملک بھرکے چھوٹے بڑے شہروں میں 168دنوں میں 229 جلسے کیے۔ 27۔28 اکتوبر 96کو حکومتی کرپشن کے خلاف دوسرا دھرنا دیا گیا 5نومبر کو صدر فاروق لغاری نے اسمبلی توڑ دی۔ احتساب کے نظام کو موثر بنانے کے لیے 1997 میں جماعت اسلامی نے جنرل (ر) محمد حسین انصاری کی سربراہی میں احتساب سیل قائم کیا۔ سید منورحسنؒ سابق امیر جماعت اسلامی کی سربراہی میں بھی تحریک احتساب جاری رہی پھر موجودہ امیر سراج الحق نے 2017 میں ’’کرپشن فری پاکستان تحریک‘‘ کا آغاز کرک صوبہ خیبر پختون خوا میں بہت بڑے عوامی جلسے سے کیا اور اس کے بعد ملک بھر میں سو سے زائد مقامات پر بڑے جلسے کیے گئے، کئی مقامات پر رشوت کے مراکز اور دفاتر کے باہر دھرنے دیے گئے اس دوران گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ شدید گرمی میں ٹرین مارچ کیا گیا، اس طرح پشاور سے کراچی تک عوام کو بیدار کیا گیا یہ ملک کی تاریخ کا ایک کامیاب ترین ٹرین مارچ تھا، پاناما اسکینڈل میں حکمران خاندان کے ملوث ہونے پر ہمارا یہی مطالبہ تھا کہ حکمران مستعفی ہوں اور عدالت میں پیش ہو کر خود کو کلیئر کروائیں۔ اب پنڈورا میں بھی وزرا اور مشیر شامل ہیں ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ ان وزراء اور مشیروں کو فوری فارغ کیا جائے اور یہ خود کو احتساب کے لیے پیش کریں۔ جو لوگ امانت و دیانت سے قومی اثاثوں کی حفاظت نہیں کرسکتے انہیں حکومتی عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔
بقول معروف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا شیطانی دھوکا وہ ہے جو شوکت ترین اور شاہ محمود قریشی نے فرینڈز آف پاکستان کے ساتھ 26ستمبر 2008 کو معاہدہ کے ذریعے کیا تھا بتایا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں حصہ داری کے بدلے پاکستان کو نقد امداد دی جارہی ہے لیکن یہ نقد امداد نہیں قرضہ تھا اس قرضے کو ادا کرنے کے لیے 2013 میں حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جس سے معیشت تباہ ہوئی۔ اس دورکے وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ آج بھی وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ ہیں اور یہ شیطانی کھیل اب بھی جاری ہے۔ شوکت ترین کا نام پنڈورا پیپرز میں آنے کے بعد ضروری ہے کہ ان سے استعفا لیا جائے اور انہیں سینیٹر نہ بنایا جائے۔
سابقہ حکومت بھی عدالت جانے کے لیے تیار نہیں تھی جس پر جماعت اسلامی نے ایک طرف عوام کو جلسے جلوسوں سے بیدار کیا اور دوسری طرف سب سے پہلے عدالت عظمیٰ میں رٹ پٹیشن پیش کرکے پاناما کے 436لوگوں کے احتساب اور لوٹی گئی دولت واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ محترم سراج الحق اور ان کے وکلا اس دوران کم و بیش ایک سو مرتبہ عدالت عظمیٰ میں حاضر رہے۔
ہم اس پر اللہ کا شکر بجالاتے ہیں کہ 75سال میں یہ اعزاز ملک کی اعلیٰ ترین عدالت، عدالت عظمیٰ نے صرف جماعت اسلامی کو دیا کہ کرپشن سے پاک جماعت صرف جماعت اسلامی ہے۔ اس کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی ادارے بھی برملا اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہی حقیقی جمہوری اور دیانتدار جماعت ہے جس کے کسی کارکن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اگر حقیقی احتساب کیا جائے اور ارکان پارلیمنٹ کو آئین کی دفعہ 62/63پر پر کھا جائے تو صرف جماعت اسلامی ایوان میں رہے گی۔ لوگ ہماری سیاست سے تو اختلاف رکھتے ہیں مگر یہ حقیقت سب تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کوئی دیانتدار جماعت ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ پاناما لیکس کی طرح اب پنڈورا پیپرز میں سب جماعتوں اور فوج سمیت تمام طبقات زندگی کے افراد کے نام شامل ہیں۔ یہ بات جماعت اسلامی کے لیے مقام شکر ہے اور پوری قوم کے لیے مقام فکر بھی کہ کرپشن کے اس وسیع و عریض اور چاروں طرف پھیلے ہوئے سمندر صرف جماعت اسلامی کے افراد ہی جزیرہ میں پلاٹ لینے، قرضے معاف کرانے، کمیشن لینے، قومی خزانہ میں غبن کرنے ٹیکس چھپانے اور راتوں رات امیر ہونے والے افراد کے ناموں کی فہرستیں شائع ہوئیں۔ یہ محض اللہ کا کرم اور آخرت کی جواب دہی کا احساس ہے جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کے کسی ایک بھی فرد کا نام آج تک کسی ایسی فہرست میں شامل نہیں ہوا۔
جماعت اسلامی کے 200کے قریب افراد مختلف ادوار میں قومی و صوبائی اسمبلیوں وسینیٹ کے رکن رہے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سٹی گورنمنٹ تین مرتبہ جماعت اسلامی کے پاس رہی۔ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان میئر و سٹی ناظم رہے۔ کتنے ہی ٹائونز و یونین کونسلرز میں جماعت اسلامی کے افراد ناظم و نائب ناظم رہے۔ سراج الحق صاحب سمیت کم و بیش 30افراد وزراء بھی رہے لیکن الحمدللہ کہ جماعت اسلامی کے کسی فرد پر کرپشن کا جھوٹا الزام بھی نہیں لگایا جاسکا۔ جماعت اسلامی نے کرپشن پر صرف تنقید ہی نہیں کی، جلسوں، جلوسوں، ریلیوں، دھرنوں اور مظاہروں وغیرہ کا اہتمام بھی کیا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے بل اور تحاریک بھی پیش کیں اور احتساب قوانین پر میں ترامیم پر اپنا پارلیمانی کردار بھرپور طریقہ سے ادا کیا اور یہ کردار ہم ان شاء اللہ اسی طرح ادا کرتے رہیں گے۔