وزیر خزانہ کی حقائق کے برخلاف گفتگو

467

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پرائی جنگوں میں کودنے سے معیشت تباہ ہوئی، اداروں کو نیشنلائز کیا گیا اور پلاننگ کمیشن کو تباہ کیا گیا۔ حکومت کو محصولات کے حوالے سے سنگین مسائل ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ معیشت کے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے شروع کیے گئے منصوبوں سے ملکی معیشت مضبوط ہوگی۔ اصولی طور پر بعض باتیں درست ہیں لیکن تین سال کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت نے ان غلطیوں کی اصلاح کے لیے کیا اقدامات کیے۔ اداروں کو قومیانے کی پالیسی چالیس سال پرانی چیز ہے۔ گزشتہ 25 برس سے تو نجکاری نجکاری کی رٹ لگ رہی ہے اور عملاً ہو بھی رہی ہے۔ پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی، بینکس اور درجنوں سرکاری اداروں کی نجکاری ہوچکی۔ لہٰذا شوکت ترین صاحب اپنی اصلاح فرمائیں کہ وہ یہ الزام کس پر لگا رہے ہیں اور کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح موصوف نے پلاننگ کمیشن کو تباہ کرنے کی بات کی ہے وہ بھی بہت پرانی بات ہے، صرف پرائی جنگوں میں کودنے کے نقصانات تازہ ہیں جس سے نکلا ہی نہیں جارہا۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت والے منصوبوں سے معیشت مضبوط ہوگی۔ لیکن جناب صنعتوں کے اسٹیک ہولڈرز تو ہر روز شکوہ کررہے ہوتے ہیں کہ ہم سے مشورہ کیے بغیر صنعتوں پر ٹیکس مسلط کردیے گئے۔ قوانین ہمارے مشورے کے بغیر بنائے جارہے ہیں جب اسٹیک ہولڈرز موجودہ حکومت سے شکوے کررہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وزیر خزانہ اپنے ساتھیوں سے نہیں کہتے کہ مشورہ متعلقہ لوگوں سے لیا کرو۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اپنی نالائقی پر پرانی حکومتوں پر الزام دھرنے یا اس کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی عادی ہے۔ یہ عادت ترک کرکے اپنی غلطیوں کا بوجھ خود اٹھانے کی عادت ڈالی جائے۔ کیا ڈالر ماضی کے حکمرانوں نے 108 سے 170 تک پہنچایا ہے۔ پٹرول 64 سے 127 تک کس نے پہنچایا۔ شکر، آٹا، تیل، دودھ کون سے سابق حکمران نے مہنگا کیا۔ اتنا ظلم کرکے بھی اِدھر اُدھر کی بات کررہے ہیں جو حقائق سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی۔