دیتی ہے یہ درس ہمیں شہادت حسینؓ کی

197

امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو رسم کی شکل دینے کی عادی ہو چکی ہے۔ شہادت حسینؓ کا واقعہ بھی سالانہ رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ماہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ اس واقعہ کو رسمی طور پر مذاکرہ کرکے یہ اطمینان کر لیا جاتا ہے کہ ہم نے نواسۂ رسول سے وابستگی کا حق ادا کر دیا۔ اسلامی تاریخ کا ہر واقعہ اپنے اندر عبرت و موعظت کا بے پناہ سامان رکھتا ہے اور عملی زندگی میں اس سے بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی حادثے اور واقعے سے عملی رہنمائی حاصل کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جبکہ زندہ قومیں ہمیشہ ماضی سے روشنی حاصل کرتی ہوئی مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔
سیدنا حسینؓ کی شہادت اور کربلا کی سرزمین پر پیش آئے واقعات کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس سے بے شمار نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے عملی زندگی میں بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ذیل میں اس قسم کے چند نکات کی نشاندہی اس مقصد سے کی جا رہی ہے کہ شاید ملی حمیت و غیرت رکھنے والے درد مندانِ ملت ان پہلوؤں پر غور کریں گے۔
1۔ سیدنا حسینؓ کی شہادت کا سب سے بنیادی پیغام یہ ہے کہ آدمی کو حق اور دینِ حق سے اس درجہ وابستگی ہو کہ وہ حق کے لیے جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے اور اگر جان کی قربانی دے کر حق کی حفاظت کی جا سکتی ہو تو اس میں کسی طرح کا پس و پیش نہ کرے۔ یزید کی بیعت کے وقت جو صورت حال تھی اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسلامی نظام حکومت اپنی ڈگر سے ہٹ رہا ہے۔ نبی کریمؐ اور خلفائے راشدین کے دور میں خلافت کا نظام رائج تھا اور اسلام جس نظام حکومت کی بنیاد رکھتا ہے وہ یہی نظام خلافت ہے۔ یزید کی آمد کے ساتھ اسلامی نظام حکومت خلافت کی ڈگر سے ہٹ کر ملوکیت میں تبدیل ہوگیا اور یہ اسلامی نظام زندگی میں ایسی اساسی تبدیلی تھی کہ جس کے اثرات صدیوں تک باقی رہے۔ بنو امیہ، بنو عباسیہ اور خود ہندوستان میں مغلوں نے بھی ملوکیت ہی کے نظام کو چلایا۔ چونکہ ملوکیت خلافت کی ضد ہے اس لیے ملوکیت کی آمد کے ساتھ مسلم معاشرہ بالکلیہ تبدیل ہوگیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر سیدنا حسینؓ نے جان کی قربانی نہ دی ہوتی تو اسلامی خلافت کے تصور کا کتابوں میں محفوظ رہنا بھی مشکل ہوتا۔ سیدنا حسینؓ جانتے تھے کہ اس وقت ملوکیت کی مخالفت کرنا اور اس کے آگے ڈٹے رہنا وقت کا تقاضہ ہے اس لیے انہوں نے اپنی جان کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا۔
2۔ سیدنا حسینؓ کی شہادت سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ مومن کو نامساعد اور ناموافق حالات میں بھی حق پر جمے رہنا چاہیے اور حق سے وابستگی میں کمزوری آنے نہ دینا چاہیے۔ لوگ عام طور پر موافق حالات میں تو حق کو اپناتے ہیں لیکن جب نامساعد حالات کا سامنا ہو تو ان کے لیے حق پر اور دین پر جمے رہنا دشوار ہو جاتا ہے پھر وہ باطل سے سمجھوتا کرنے میں عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔ موافق حالات میں دین پر جمے رہنا کوئی کمال نہیں، کمال تو یہ ہے کہ ناموافق حالات میں بھی دین کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ آج کتنے مسلمان ہیں کہ ناموافق حالات میں شکوہ و شکایات شروع کر دیتے ہیں اور دین حق سے وابستگی میں انہیں خوف محسوس ہونے لگتا ہے۔ دہشت گردی کے الزام کے خوف سے بہت سے لوگوں کو دکھایا گیا کہ انہوں نے اپنی اسلامی وضع قطع کو خیر باد کہہ دیا۔
3۔ شہادتِ حسین کا تیسرا سبق یہ ہے کہ مومن کو مخالفانہ ماحول سے متاثر نہ ہونا چاہیے۔ بیعتِ یزید کے وقت بیشتر لوگ خوف کے مارے سکوت اختیار کیے ہوئے تھے۔ ماحول بالکل مخالفانہ تھا لیکن سیدنا حسینؓ نے اس کی پروا نہیں کی۔ جس طرح سیدنا ابراہیمؑ نے بھی انتہائی مخالفانہ ماحول میں توحید کا نعرہ بلند کیا اور خود نبی کریمؐ بھی مکہ کے مخالفانہ ماحول میں حق پر جمے رہے۔ آج اکثر لوگ دینی معاشرت اور تہذیب کو اختیار کرنے میں اس لیے احتراز کرتے ہیں کہ لوگ اور اہل خاندان مخالفت کریں گے۔ ایک مومن کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی ناراضگی کی پروا نہ کرے بلکہ صرف خدا کو راضی کرنے کی کرے۔ خدا کی رضا کے لیے چاہے ساری مخلوق ناراض ہو جائے تو بھی کوئی پروا نہ کرے۔
4۔ شہادتِ حسینؓ کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ مومن کو حق کے دفاع اور تحفظ کے لیے ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ علمبردارانِ حق کبھی ظاہری اسباب تعداد و اسلحے سے مرعوب نہیں ہوتے۔ سیدنا حسینؓ باوجود اس کہ ان کے حامیوں کی تعداد کم تھی ان کے پاس اسباب بھی کم تھے لیکن وہ دشمن کے اسباب و وسائل سے مرعوب نہیں ہوئے۔ جنگ بدر میں نبیؐ کا طرز عمل بھی اس کی شہادت دیتا ہے۔ ہر زمانے میں اہل حق نے بے سروسامانی کے عالم میں حق کا دفاع کیا۔ نیز حسینؓ کے واقعے سے اس کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ کامیابی و ناکامی کا تعلق ظاہری فتح و شکست سے نہیں۔ اصل چیز مقصد میں کامیابی چاہے وہ لڑتے لڑتے جان دینے سے کیوں نہ حاصل ہوجائے۔
5۔ سیدنا حسینؓ کی شہادت کے واقعات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مصیبت ہو کہ خوشحالی ہر حال میں مومن احکام الٰہی کا پابند ہے۔ شدت مصیبت سے ٹکرا کر وہ احکام الٰہی کو پامال نہیں کرتا۔ عین حالتِ جنگ اور معرکۂ کار زار میں بھی حسینؓ نے نماز ترک نہیں فرمائی اور اللہ کے احکام کو پامال ہونے نہیں دیا۔
6۔ واقعہ شہادتِ حسینؓ اور دیگر انبیائے کرام کے ساتھ پیش آئے واقعات سے ایک بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ اللہ نے جس کسی کو بلند مقام عطا فرمایا اسے پہلے آزمائش میں مبتلا کیا۔
7۔ واقعہ شہادت حسینؓ کا ایک عظیم نکتہ ہے جس کی طرف مولانا آزاد نے اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ شہادت حسینؓ دراصل تکمیل جہاد کا ذریعہ ہے۔ خاندان نبوت دنیا کو آباد کرنے کے لیے ہمیشہ اجڑتا رہا۔ سیدنا ابراہیمؑ نے ہجرت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے گھر بار چھوڑا اور نبوت محمدیؐ کے متبعین میں سے سیدنا حسینؓ نے میدان کربلا کے اندر اس خانہ ویرانی کو مکمل کر دیا۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے خاندانِ نبوت کا سلسلہ ملا ہوا ہے۔ انہوں نے ایک وادی غیر ذی زرع میں شدت تشنگی سے ایڑیاں رگڑی تھیں۔ سیدنا حسینؓ نے بھی میدانِ کربلا میں اس خاندانی روش کو زندہ کیا‘‘۔
8۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی واقعۂ شہادت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سیدنا حسینؓ نے اگر از خود کہیں حملہ کر دیا ہوتا تو مخالفین کو یقیناً یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ فوج کشی، ملک گیری اور حصول سلطنت کے اغراض سے ہوئی اور اگر کہیں حکومتِ فاسقہ کے مطالبہ بیعت کو مان لیا ہوتا تو دوسری طرف اْمت کے لیے ایک سند اور نظیر قائم ہو جاتی کہ مرد حق پرست کے لیے باطل کی اطاعت اور فسق سے مفاہمت جائز اور درست ہے۔ سیدنا حسینؓ نے افراط اور تفریط دونوں سے بچ کر وہ راستہ اختیار کیا جو عین عدل و اعتدال کا راستہ تھا۔ اسوۂ حسین ہمیشہ کے لیے امت کے حق میں دلیل راہ بن گیا‘‘۔