کیا ہم نئی نسل میںتھیلے سیمیاکی بیماری پھیلنے سے روک سکتے ہیں؟

2352

8مئی تھیلے سیمیاکا عالمی دن

اس بیماری سے بچنے کی آسان ترین تدبیر صرف شادی سے قبل خون کا ایک سادہ ساٹیسٹ ہے، ماہرین
تھیلے سیمیا؛ ایک جان لیوا خطرناک بیماری ، جس سے آپ اپنی آنے والی نسلوں کو صرف ایک سادہ ٹیسٹ کی مدد سے با آسانی محفوظ رکھ سکتے ہیں
روزنامہ جسارت کے زیر اہتمام ، تھیلے سیمیا کے عالمی آگہی دن کے حوالےسے جسارت فورم کا انعقاد
عمیر ثنا فائونڈیشن، کاشف اقبال تھیلے سیمیا، ہیلپ انٹرنیشنل ویلفیئر ٹرسٹ، سیلانی بلڈ بینک تھیلے سیمیاسینٹرکی شرکت
شریک مہمانوں کا تعارف
محمد اقبال
کاشف اقبال تھیلے سیمیا سینٹر
1996میں بیٹے کاشف کاتھیلے سیمیا کے باعث انتقا ل ہوا ۔ اہلیہ کے کہنے پر اس بیماری کی آگہی پر کام کا آغاز کیا۔ 1998 میں اس بیماری کے لیے ٹیسٹ کا سلسلہ شروع کیا۔تب سے آج تک مستقل کام کر رہے ہیں۔ایشیا کا ایک ماڈ ل تھیلے سیمیا سینٹر بنانے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر غلام سرور
پروجیکٹ ڈائریکٹر،سیلانی بلڈ بینک تھیلے سیمیا سینٹر
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کو آرڈینیٹرتھیلے سیمیا برائے مشرقِ وسطی ممالک کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ 2016-17 سے سینٹر چلا رہے ہیں ،کوشش کرتے ہیں کہ آگہی کی زیادہ سے زیادہ سرگرمیاں کی جائیں ۔اس بیماری کے خاتمے اورپھیلائوکو روکنے کے لیے سائنسی بنیادوں پربھی کوششیں کر رہے ہیں۔
سید محمد عارف علی

بانی و چیف ایگزیکٹیو ، ہیلپ انٹرنیشنل ویلفیئر ٹرسٹ
2012 سےتھیلے سیمیا کے مریضوں کے علاج و نگہداشت کے لیے کام کر کر رہے ہیں، 270 مریض بچے اس وقت زیر علاج ونگہداشت ہیں۔اس کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں بھی خدمت کے جذبہ کے ساتھ کام کر ر ہے ہیں۔
ڈاکٹر ثاقب انصاری، عمیر ثنا فائونڈیشن
طب کے شعبہ سے تعلق ہے، خون کی بیماری اور بچوں کے ڈاکٹر ہیں۔2004میں عمیر ثنا فائونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ تمام اداروں سے باہمی تعاون کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔گزشتہ سالوں میں اس بیماری سے متعلق آگہی میں ضرور اضافہ ہوا ہے مگر آبادی کے تناسب اور نئے آنے والے مریضوں کی تعداد دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ بہت زیادہ شعوری کوشش کی ضرورت ہے۔
وزیر رضا
ہیڈ آف ایڈمنسٹریشن ، شعبہ میڈیکل سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ
گلشن ا قبال میں تھیلے سیمیا سینٹرہے جہاں 600 سے زائد بچے جڑے ہوئے ہیں۔
سلمان علی :جسارت فورم درحقیقت معاشر ے کے ایسے زندہ مسائل کے حل اور آگہی کی جانب قدم ہے جو ان کے لیے خیر کا باعث ہوگا۔جسارت اپنے ۵۰ سالہ اشاعتی سفر میں کمرشل یا زرد صحافت کا نہیں بلکہ نظریاتی صحافت کا امین رہا ہے اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔اس فورم کے ذریعہ جسارت اپنے معززقارئین کو عمومی ملکی، بین الاقوامی و مقامی خبروں سے ہٹ کر معاشرے کے اہم زندہ موضوعات و مسائل کی جانب متوجہ کرنا ہے ، ساتھ ساتھ آگہی واصلاح کے پہلو کو بھی اُجاگر کرنااور حکومتی اصلاح کے لیے تجاویز بھی مرتب کرنا ہے۔تھیلے سیمیا جیسی جان لیوا بیماری پاکستان میں بھی مستقل بڑھتی جا رہی ہے ۔ خون کی اس اب تک کی سائنسی ریسرچ کے مطابق اس بیماری کا علاج جہاں خاصا مہنگا ہے وہاں اس سے مکمل محفوظ رہنے کی تدابیر انتہائی سستی اور نسلوں تک تحفظ کی ضمانت ہیں۔اس تناظر میں متعلقہ شعبہ کے ماہرین و متعلقین کے ساتھ جسارت فورم کا انعقاد کیا گیا ۔حکومت اور کمیونٹیز مل کر اس جان لیوا بیماری سے اپنی نئی نسل کو بچا سکتی ہیں ، تھیلے سیمیا مریضوں کی زندگیاں بحال رکھنے میں مصروف ماہرین کا جسارت فورم میں اظہار خیال
3 سال سے سندھ میں شادی سے قبل ٹیسٹ کا قانون بن چکا ہے مگر اب تک کسی سطح پر عمل نہیں کرایاجا رہا، یہاں تک کہ اندرون سندھ ٹیسٹ کی سہولیات بھی نہیں، اقبال احمد
بون میرو ٹرانسپلانٹ اس مرض کا علاج ہے جس پر 50 لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے، ورنہ مریض کو ساری عمر خون لگتا رہتا ہے، ڈاکٹر ثاقب انصاری
یہ بیماری غریب امیر کو نہیں دیکھتی، مالی استطاعت رکھنے والے افراد بڑے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں مگر ڈسٹرب وہ بھی پوری طرح ہوتے ہیں،عارف علی
انسانی جسم خون بنانا چھوڑ دیتا ہے اور مریض کو زندہ رکھنے کے لیے مستقل نیا خون لگانا پڑتا ہے ، اس لیے مستقل بلڈ بینک اور ڈونرز کی ضرورت پڑتی ہے ،اقبال احمد
والدین بچوں کی علاج کی تکلیف نہیںاٹھانا چاہتے اور بچوں کو لاوارث چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، تعلیم یافتہ افرادمیںبھی خون عطیہ کرنے کا شعور نہیں ۔وزیر رضا
بلڈ گروپ کے خون کی دستیابی کے لیے حکومت کے پاس کسی قسم کا کوئی ڈیٹا بینک موجود نہیں ، شناختی کارڈ پر اندراج لازمی ہوناچاہیے، ماہرین و سماجی تنظیموں کی مشترکہ رائے
ملک میں 1 لاکھ مریضوں کے لیے 12 لاکھ خون کی بوتلیں درکار ہیں۔ جبکہ 5000 نئے مریض ہر سال آرہے ہیں۔یہ خون کہاں سے آئیگا؟اقبال احمد
پولیو،کرونا ،ڈینگی کی مانند جب تک تھیلے سیمیا کا پریشر اور خوف نہیں ہوگا، لوگ سنجیدہ نہیں لیں گے،وگرنہ متاثرہ خاندان ہی جھیلتا رہےگا،عارف علی
سلمان علی :تھیلے سیمیا کی بیماری کیا ہے؟ کب ظاہر ہوئی ؟یہ بیماری ہوتی کیسے ہے ؟ اس کے آثار کیا ظاہر ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری:تھیلے سیمیا اپنے عنوان کے لحاظ سے خون کی ایک بیماری ہے ۔خون کے سرخ خلیے پورے جسم میں آکسیجن پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ ہیموگلوبن خون کے سرخ خلیوں میں موجود وہ پروٹین ہوتا ہے جو آکسیجن کو لیکرجاتا ہے۔ یہتھیلے سیمیا جسم کی ہیموگلوبن پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔تھیلے سیمیا کا نام جب ہم لیتے ہیں تو اس سے مراد میجر ہی ہوتا ہے کیونکہ مائنر افراد تو قدرتی طور پر ہی سامنے آتے ہیں،جن میں کوئی منفی علامت یا بیماری کی کیفیت ظاہر نہیں ہوتی، وہ صحت مند ہی نظر آتے ہیں۔ اُن کے جسم میں ہیموگلوبن بنانے کی ایک بیٹا گلوبن جین متاثر ہوتی ہے۔اب اُس مائنر فرد کی شادی اگر اسی مائنر یا نیگیٹیو جرثومہ رکھنے والے فرد سے کر دی جائے تو 25 فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ اُن کے گھر میں جو بچہ پیدا ہوگا اس کوتھیلے سیمیا میجر ہوگا۔اس لیے مریضوں کے دستیاب ڈیٹا و تجربات و مشاہدے سے یہ اصول سیٹ ہوا ہے کہ اگر ماں و باپ دونوں مائنر ہوں گے تو انکی ہر زچگی میں 25 فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ آنے والا بچہ اس مرض یعنیتھیلے سیمیا میجر کا مریض ہوگاجسے ہر ماہ یا اس اسے بھی زیادہ نیا خون لگانے کی ضرورت ہوگی زندہ رکھنے کے لیے۔یہ مرض نسلوں سے چلا آرہا ہے، پر دادا کے زمانے میں یہ کہہ دیتے کہ قسمت تھی بچہ مرگیا، کمزور ہوگیا پیٹ پھول گیا تھا ، کیونکہ بیماری کی پکڑ ہی نہیں تھی اور نہ ہی خون تبدیلی کا کوئی ایسا تصور تھا۔125 سال پہلے اس کو باقاعدہ نام دے کر تشخیص کیا گیا۔ کولیز اینیمیا اسکو ابتدائی نام دیا گیا ،اس کے بعد اس کو مزیدپہچانا گیا پھر80سال قبل برطانیہ میں اسکو باقاعدہتھیلے سیمیا نام دے دیا گیا۔ 1970 میں پاکستان میں پہلا کیس جنرل سلیم نے راولپنڈی میں اس کیس کو دریافت کیا ۔اس کے بعد اب اس مرض کی تشخیص کا ٹیسٹ ہر لیبارٹری میں عام ہو چکا ہے ۔بچہ 5سے 6 ماہ کی عمر میں ہی علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے ، چہرے پر سفیدی مائل پیلاہٹ آجاتی ہے ،تلی یا جگر بڑھنے کی وجہ سے پیٹ پھول جاتا ہے۔خون کم ہونے کی وجہ سے بچوں کو ڈائریا، موشن ، الٹی ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ کمزوری کی وجہ سے بچوں پر کئی بیماریاں حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ اس میں ڈاکٹر اگر علامات کو درست جانب محسوس کر لیتا ہے تو وہ فوری ایک ٹیسٹ کراتا ہے ، جو اس بیماری کی فوری تشخیص کر دیتا ہے ۔
سید عارف علی : میں سگریٹ کی مثال دوں گا کہ کتنی خطرناک تصویر بنی ہوتی ہے مگر لوگ پھر بھی نہیں چھوڑتے ، ریاست کی اہم ترین ذمہ داری ہے ، این جی اوز معاونت کرنے کو تیار ہیں مگر مکمل خاتمے کے لیے سرکار کو ہی سنجیدہ ہوکر اقدامات کرنے ہوںگے ۔بچوں کے ب فارم میں با آسانی اس کا اندراج ممکن ہے جو بعد ازاں شناختی کارڈ پر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ لوگ بچوں کی شادیاں طے کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسل کے تحفظ کی فکر کریں ، لازمی ٹیسٹ کرائیں اور اگر دونوں مائنر کیرئیر ہوں تو باعزت انداز سے معاملہ روک دیں، بلا شبہ سب اللہ کے اختیار میں ہے ، مگر انسانوں تک یہ علم اللہ ہی کی عطا ہے،کیونکہ بعد ازاں آپ کے معصوم نواسے نواسیوں، پوتے پوتیوںمیں یہ مرض پورے خاندان کے لیے شدید تکلیف کا باعث بنے گا۔ وہ ڈاکٹر آپ کو اُس وقت یاد آئے گا مگر کیوں نہ وقت سے پہلے ہی ڈاکٹر کی بات مان لی جائے ۔سلمان علی :جس طرح نسل در نسل یہ منتقل ہو رہی ہےتو اس بیماری کی عالمی اور پاکستان میں اس کی کیا شرح کیا دیکھتے ہیں؟
محمد اقبال: مجھے نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ شرح مستقل بڑھتی جا رہی ہے، ہم خود اپنی اولاد میں یہ بیماری معصوم بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ میں تھیلے سیمیا مائنر ہوں ، میری اہلیہ بھی مائنر کی کیرئیر ہے میری کزن ہے ۔ میری ایک بیٹی مائنر پیدا ہوئی جبکہ بیٹا کاشف اقبال 16 سالتھیلے سیمیا میجر کا مریض پیدا ہوا۔ چار ماہ کی عمر سے ہم 16 سال تک اس کو زندہ رکھنے کی جدو جہد میں جس طرح دَر دَر دوڑے یہ ہم جانتے ہیں ۔اس کا حل صرف یہ سامنے آیا کہ دو مائنر کبھی بھی شادی نہ کریں چاہیں وہ لیلی مجنوں ہی کیوں نہ ہوں۔ہمارے سینٹر میں روزانہ ایک نیا بچہ تھیلے سیمیا میجر کا مریض آتا ہے۔آغاز میںتھیلے سیمیا ایک خطے کی بیماری سمجھی جاتی تھی، لیکن اب یہ دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے۔ یہ جنوب یورپ میں پرتگال سے اسپین، یونان اور وسطی یورپ کے علاوہ روس کے کچھ علاقوں میں بھی موجود ہے۔ وسطی ایشیا میں یہ ایران، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور شمالی چین کے علاوہ افریقہ کے جنوبی ساحل اور جنوبی امریکہ میں بھی موجود ہے۔برطانیہ میں حال یہ ہے کہ گذشتہ 10 سال میں تھیلیسیمیا میجر کا کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔پاکستان میں کوئی ایک لاکھ مریضوں کی تعداد کا تخمینہ لگایا جاتا ہے ، صرف میرے پاس 910 بچے رجسٹرڈ ہیں ، مطلب ہر مہینے 1000 کے قریب بوتلیں اور سال میں  12000 خون کی بوتلیں درکار ہوتی ہیں۔اسی طرح ملک میں 1 لاکھ مریضوں کے لیے 12 لاکھ خون کی بوتلیں درکار ہیں۔ یہ خون کہاں سے آئیگا؟خون دینے کی شرح معاشرے میں کیسی ہے یہ ہم خود جانتے ہیں؟پھر یہی نہیں خون آپ کو متعلقہ گروپ کا ہی چاہیے ہوتا ہے ، اکثر اس معاملے میں پورا ملک چھاننا پڑ جاتا ہے ۔ یہ سب کوئی جامع ڈیٹا مرتب نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔اب اگر 5000 نئے بچے اس مرض کے پیدا ہو رہے ہیں تو کہاں سے مزید خون آئے گا۔ تھیلیسیمیا کی آگہی اور حکومتی سخت اقدامات ہوں تو کئی بچے جان سے نہیں جا سکیں گے۔ میرے اپنے 9 بھائی بہن ہیں، جن میں ہم 2 بھائی 7 بہنیں ہیں۔2 بھائیوں میں سے میں مائنر تھا میرا بھائی نارمل تھا۔میری 7 بہنوں میں سے 5تھیلے سیمیا مائنر کے کیرئیر ہیں، ان کی شادیاں نارمل صحت مند افراد سے ہوئی ۔ اب ان سے میرے 23 بھانجے بھانجیاں ہیں،جن میں 17 مائنر پیدا ہوئےہیں۔
اس طرح میرے اپنے 6سالے سالیاں، 2 بیٹی، 5نواسے نواسیوں  میں  سے 4 مائنرنکلے ہیں۔اب اگر میری بہنیں اور میں بغیر دیکھے ، سوچے سمجھے اپنے مائنر کزن کی آپس میں اگرشادی کرادیں گے تو اندازہ کریں کہ یہ بیماری کہاں تک پھیل جائے گی؟اسی طرح لوگ ٹیسٹ نہیں کراتے اوریوںبیماری کی یہ شرح بڑھتی اور مستقل پھیلتی جا رہی ہے۔آگہی کا عالم یہ ہے کہ میں ڈاو یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہا تھا وہاں 300 ڈاکٹر موجود تھے میں نے سوال کیا کہ کتنوں نے یہ ٹیسٹ خود کرایا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ صرف ایک ڈاکٹر نے یہ ٹیسٹ کرایا تھا ۔ اس سے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ خود ڈاکٹرز میں یہ آگہی اور خود اپنی نسل میں اس بیماری کو بچانے کی شرح کا کیا حال ہے۔
سلمان علی:پاکستان میں کتنے ادارے مریضوں کے لیے کام کر رہے ہیں، انکے کیا اثرات ہیں؟پاکستان سے باہر اس مرض کے کنٹرول کے حوالے سے کیا اقدامات دیکھے؟
ڈاکٹر غلام سرور:59 کے قریب این جی اوز پاکستان میں  تھیلیسیمیا پر کام کر رہی ہیں ، اگر یہ 500 بھی ہو جائیں تو بھی اس مرض پر کوئی قابو نہیں پا سکتیں۔ جن ممالک نے حکومتی سطح پراقدامات کیے وہاں اس مرض کی شرح صفر کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ اس کے تمام تر قابو کرنے کے اختیارات حکومت کے پاس ہیں۔حکومت اگر اس مرض پر قابو پانے کا تہیہ کر لے تو کرونا کی مانند ہم نے دیکھا کہ حکومت نے کیسے کیسے اقدامات کیے کہ کرونا قابو میں آگیا۔سعودی عرب کی مثال ہمارے پاس ہے جہاں مریضوںکی تعداد 19 سے3 فیصد پر آگئی۔ انہوں نے تعلیمی اداروںمیں داخلے کے لیےتھیلے سیمیا کے ٹیسٹ کی شرط رکھ دی ۔ یہی نہیں سعودی عرب نے تو نصاب میں بھی اس مرض سےآگہی کے لیے اسباق ڈالے گئے یہاں تک کہ امتحانات میں سوالات بھی ڈالے گئے۔ اس کے نتیجے میں مائنر لوگوں نے شادیوں میں خیال رکھا ، بلکہ لڑکیوں کو بیرون ملک نارمل افراد سے بیاہا جس سے مائنر میں بھی کمی ہوئی جبکہ اندرون ملک بھی احتیاط کی وجہ سے مزید بیماری وہاں بھی نہیںپھیل سکی۔ اس بیماری کی اہم بات یہی ہے کہ یہ جینیاتی طور پر ہی منتقل ہوتی ہے، یہاں تک کہ اگر مائنرکیرئیراگر کسی کو خون دے دے تو بھی یہ منتقل نہیں ہوتا، یاد رہے کہ مائنر کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا کہ وہ قدرتی طور پر ہوتا ہےاور مائنر کا کیرئیر مریض نہیں کہلاتا۔ ایران میں یہی پریکٹس اپنائی گئی ، صوبہ پنجاب خصوصاً دیہی علاقوں میں اس پر خاصا کام کیا گیااور بڑی حد تک وہاں اس مرض پر کنٹرول کیاگیا ہے ، جو کہ ریاستی کنٹرول کے ذریعہ انجام دیا گیا۔سعودی عرب میں خون کا عطیہ دینا ہر دستاویز کی تیاری کے وقت لازمی کر دیا گیاہے ۔
سلمان علی: مریضوں میں خون کی مستقل فراہمی کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیںاور آسانی کے لیے کیا قابل عمل اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: ہم نے اس ضمن میں 16سال قبل کراچی یونیورسٹی میں نئے تعلیمی سیشن کے موقع پر اپنی وین کھڑی کی اور مفت ٹیسٹ کا آغاز کیا۔اس کی یونیورسٹی کو ہم اس کی سالانہ رپورٹ بھی جمع کراتے ہیں۔یہی کام ہم نے ہمدرد یونیورسٹی میں بھی شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بلڈ گروپ سامنے آتے ہیں،تھیلے سیمیا مائنر کے کیسز سامنے آجاتے ہیں اور ہم انکو بروقت آگہی فراہم کردیتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوںکہ نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ میں کم از کم یہ دو اندراج بڑھا دیئے جائیں تو یہ اِس بیمار ی کو روکنے میں بہت بڑا کام ہوگا ۔اِس کا فائدہ صرفتھیلے سیمیا کی حد تک نہیں ہوتا بلکہ مزید بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں بھی ، کسی حادثہ کی حالت میں ،کبھی بھی اس شناختی کارڈ میں اندراج کی سہولت کی وجہ سے متعلقہ خون کا گروپ با آسانی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔لوگ تو O نیگیٹیو گروپ کو تلاش کرتے ہیں مگر ہم تو بمبے بلڈ گروپ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس 2بچے بمبے بلڈ گروپ کے ہیں۔ اس کو او گروپ نہیں لگ سکتا یہ Oنیگیٹیو سے بھی بالکل نایاب گروپ ہے۔اس باپ کے بارے میں سوچیں جو اپنی بیٹیوں کی زندگی کے لیے ہر مہینے ایسے ڈونر ملک بلکہ دنیا بھر میں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔ہمیں ایک ڈونر ملا جو سینٹرل جیل میں ملازمت کرتا ہے ، ایک ڈونر امریکہ سے آتا ہے۔اس لیے ہمیں اور ان والدین کوکتنے جتن کرنے پڑتے ہیں بلڈ گروپ ڈھونڈنے میں یہ ہم جانتے ہیں۔اس لیے اگر شناختی کارڈ پر اندراج آجائے تو یہ کام بہت آسان ہوگا انسانی جانوں کو بچانے کے لیے ، چاہے کسی ایمرجنسی کی صورت ہو یاتھیلے سیمیا کی ضرورت کی وجہ سےہو۔سلمان علی:سیلانی نے کیسے اس بلڈ بینک وتھیلے سیمیا سینٹر پر کام شروع کیا؟اس مرض کو جھیلتا وہ خاندان ہے جن کے گھرتھیلے سیمیا میجر کا بچہ پیدا ہو ، تو جو والدین بچے لاتے ہیں تو انکی کیا کیفیات ہوتی ہیں؟
وزیر رضا: سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی نے یہ بات طے کی کہ اس ادارے کی بنیاد صرف تقوی ہے، مطلب صرف اللہ کی رضا کی خاطر یہ کام ہوگا۔اس کے پیچھے کوئی دنیاو ی مقصد نہیں ہوگا۔علامہ بشیر فاروقی فرماتے ہیں کہ غریب آدمی جب بیمار ہوتا ہے تو اس کو دوائی، معالج وغیرہ کا اگر بندو بست ہوجائے تو بھی اس کی زندگی بچانے کےلیے اگر کسی کو خون کی ضرورت پڑجائے تو وہ کہاں سے بندو بست کرے گا،پھر ایسے مریض جن کو مستقل خون کی ضرورت ہوتو ہم نے دیکھا کہ قریبی رشتہ داربھی ایک وقت میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں، یہی نہیں ڈاکٹرز بھی یہی بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ خون دینے کے بعد کم از کم3ماہ کا وقفہ ضروری ہے ،اسی طرح آگہی و معلومات کی کمی کی وجہ سے خون دینے جیسی عظیم سعادت سے لوگ بھی کتراتے ہیں ۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کراچی میں تو ٹریفک حادثات کی شرح مستقل بڑھتی جا رہی ہے ، ایسے میں لوگوں کو فوری خون کی ضرورت ہوتی ہے اور لوگ در بدر خوار ہوتے ہیں۔ہم نے دیکھا کہ لوگوں کے لیے خون کا انتظام کرنا بڑا چیلنج ہے، ہم نے جب آغاز کیا تو اس زمانے میں سوشل میڈیا بھی اتنا نہیں تھاجس سے بڑے پیمانے پر لوگوں سے رابطہ ہو جاتا۔سیلانی ویلفیئر لوگوںکے علاج معالجے میں تو تعاون کرتا تھا مگرلوگوں نے اپنے کیسز کے مطابق ہم سے رابطہ کیا کہ ہمیں خون بھی درکار ہے تو ہم نے اس پر غور کیا کہ خون واقعی اہم مسئلہ بن چکا ہے ۔ ہم نے کئی بلڈ بینک وتھیلیسیمیا سینٹر میں رابطہ کیا تو معلوم ہواکہ وہاں مزید بچے اس لیے نہیں رجسٹر ہو سکتے کہ ان کے پاس مزید خون نہیں تھا ، چنانچہ سیلانی ویلفیئرٹرسٹ (باقی صفحہ 7پر)
بقیہ:تھیلے سیمیا/فورم
نے بلڈ بینک اورتھیلے سیمیا سینٹر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ثاقب نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا۔ہمیں آج بھی بلڈ ڈونیشن ڈرائیو میں ہوتی ہے وہ بھی تعلیم یافتہ طبقہ میں ، ہم جاتے ہیں کئی جامعات میں بلڈ ڈونیشن کےحوالے سے مگر ہمیں وہا ں سے وہ نتائج یا تعداد نہیںملتی جیسا ہم توقع کرتے ہیں۔عام طور پر رمضان میں ہر بلڈ بینک میں یہ خون کی کمی مسئلہ آتا ہے جبکہ تمام ڈاکٹر کہتے ہیں کہ رمضان میں خون دینے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔اہم بات تو یہ ہے کہ خون ایسے سوئی لگا کرکسی کا نہیں نکال لیا جاتا ، یہ خون تو لیا ہی اسکا جاتا ہے جس کے پاس دینے جتنا خون موجود ہو، جو طبی طور ، جسمانی طور پراس قابل ہوکہ وہ خون دے سکے صرف اسکا ہی خون لیا جاتا ہےچنانچہ اس حوالے سے میڈیا ، اساتذہ ،ڈاکٹر سب کو مل کرشعور بیدار کرنا ہوگاکہ یہ ایک بڑا نیکی کا کام بھی ہے اور اچھی انسانی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے ۔اب اس مسئلہ کا اتنا شدید معاشرتی اثر ہوتا ہے کہ آپ اندازہ کریں کہ والدین اپنے بچوں کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ باپ علاج نہ کر سکنے کی استطاعت پر بیوی کو طلاق دے کر چلا گیا۔کئی مائیں ہیں جو بچوں کو چھوڑ کر چلی گئیں کہ وہ اس تکلیف سے نہیں گزرنا چاہتیں۔ وہ بچے جس کو اس کے ماں باپ لاوارث کر جائیں،ذرا تصور کریں انکی کیسے علاج ونگہداشت کی جاتی ہے؟پچھلے سال ہی ایک وڈیوسوشل میڈیا پر آئی کہ ماں باپ تین بچوں کے ساتھ جن کوتھیلے سیمیا میجر تھا اور وہ علاج معالجہ سے قاصر تھے تو خود کشی کرنے جا رہے تھے ۔ سیلانی ویلفیئر نے ان تک رسائی حاصل کی اورخودکشی سے بچا کر علاج ،معالجہ اور انکی مالی مدد کے ساتھ معاملات کو ہاتھ میں لیا۔
سلمان علی:تھیلے سیمیا کے اداروں میں آنے والے مریضوں میں آگہی پہنچانے کے لیے کیا معاملہ رہتا ہے؟
عارف علی: ایسا نہیں ہے کہ مریض صرف غریب افراد میں ہو، امیر افراد میں بھی یہ بیماری جاتی ہے ،مگر وہ لوگ جن بڑے ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں وہاں انکو ہر طرح کی سہولت میسر ہو جاتی ہے ۔ایسا نہیں کہ وہ ڈسٹرب نہیں ہوتے ، جن والدین کو چاہے وہ کتنا تعلیم یافتہ اور مالی طور پر متمول ہوں انکویہ معلوم ہوتاہے کہ ان کا بچہتھیلے سیمیا میجر کا شکار ہے وہ لازمی پریشان ہوجاتے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے ایک بار یہ بات کہی تھی کہتھیلے سیمیا میجر کا ایک بچہ کسی گھر میں سامنے آجائے تو وہ گھر پوری طرح ڈسٹرب ہو جاتا ہے ۔ جو ہم اپنے تجربے سے سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ لوگ اس کا خوف محسوس نہیں کر رہے۔لوگ پیسہ دے دیتے ہیں، باتیں سن لیتے ہیں، ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، جو سب سمجھتے بھی ہیں مگر وہ اپنے بچوں تک کہ ٹیسٹ نہیںکراتے، کہ ان کو اس کا ڈر خوف بالکل نہیں ہے۔پاکستان میں ایک ڈیڑھ لاکھ مریضوں کی تعداد کل آبادی کا 0.05فیصد بھی نہیں۔اس لیے اسکا خوف ہمارے دلوں میں نہیں بیٹھا، یہاں تک کہتھیلے سیمیا میجر کے چھ چھ بچے ہو جاتے ہیں، جبکہ پہلے بچے کے بعد ہی سختی سے منع کر دیا جاتا ہے کہ اب زچگی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ماں باپ دونوں مائنر ہوتے ہیں۔کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، جب تک سنجیدہ نہیں لیا جائے گا، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ہمیں میڈیا سمیت تمام طبقات کو ساتھ ملانا ہوگا۔ ہم نے صاف محسوس کیا ہے کہ لوگ ٹیسٹ نہیں کراتے ، احتیاط نہیں کرتے اور اس بیماری کو مستقل نئی نسل میں منتقل کر رہے ہیں بلڈ ٹرانسفیوژن اپنی جگہ ہے مگر اس بیماری کو روکنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔اس کےلیے لوگوں کو شعور دینا ہی واحد حل ہے کہ لوگ خود اس سے بچنا چاہیں۔اس ضمن میں سوشل میڈیا بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔
سلمان علی: لوگ بیماری میں ڈاکٹرز کے پاس دوڑتے ہیں تو کیا ڈاکٹرز اس بارے میں آگہی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری:میں بطور ڈاکٹر مریض کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں، ہم بون میرو ٹرانسپلانٹ کر سکتے ہیں ، سی وی ایس، جینیٹک ٹیسٹ کر سکتے ہیں ،محفوظ خون لگا رہے ہیں، ہم اِسی کے مکلف ہیں۔اصل کام معاشرے کا ہے ، میں بطور ڈاکٹر فرد کی جسمانی حالت درست کر سکتا ہوں ۔ صورتحال یہ ہے کہ میرے پاس ایک سال سے کم عمر کے روزانہ 12 مریض آ رہے ہیں۔باقی ڈاکٹرز کا میں نہیں کہہ سکتا۔جب تک حکومت کورونا کی طرح سنجیدہ اقدامات نہیں کرے گی یہ قابومیں نہیں آئے گا۔جب تک معاشرے کے ڈاکٹرز ، سیلانی جیسے ادارے ، معاشرے کے منبر و محراب عوام کو درست توجہ نہیں دلائیں گے یہ حالت نہیں بہتر ہوگی۔سلمان علی: ڈاکٹر صاحب ، آپ نے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا ذکر کیا ؟ یہ کیا علاج ہے ، اسکے کیا اثرات ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: اِس بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ اس مرض کا واحد علاج ہے ۔مرحوم ڈاکٹر طاہر شمسی نے پاکستان میں اس علاج کا آغازکیا۔ 1سے5سال کے اندر یہ ٹرانسپلانٹ ممکن ہوتا ہے اس کے بعد کی عمر میں اس ٹرانسپلانٹ کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔80 فیصد بچے ایسے ہیں جو اس علاج سے مکمل تندرست ہو جاتے ہیں۔یہ علاج بھی ڈونر کی مدد سے کیا جاتا ہے ،پہلے اس کو مریض کے خون سے ملایاجاتا ہے اس کی ریڑھ کی ہڈی کے درمیان سے 200 ملی لیٹر جتنا نکالاجاتا ہےاور اس کو مریض میں منتقل کر دیا جاتا ہے ۔ڈونر کو اس عمل سے کوئی فرق نہیں پڑتا،پاکستان میں یہ علاج 26 سال سے جاری ہے ۔یہ ویسے تو مہنگا علاج ہے جس پر کوئی 50 لاکھ روپے لاگت آتی ہے، جسے حکومت کوئی پالیسی بنا کر مریض بچوں کے لیے آسان کر سکتی ہے۔ورنہ مریض کو ساری عمر خون لگتا رہتا ہےاور یہ ساری عمر بھی کوئی بہت زیادہ نہیں ہوتی ۔ ہم سب کےتھیلے سیمیا سینٹر ہیں ، جہاں کے اوسط بچے 20سال کی عمر نہیں گزار پاتے ۔میں بوڑھا ہوگیا ہوں، ساری کوششیں کر کے ، تمام ادارے روپیہ پانی کی طرح اِن بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے بہا رہے ہوتے ہیں، مگر اس میں ہم بچوں کو اس سے زیادہ سہارا نہیں دے سکتے ۔
سلمان علی: عالمی دن کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
اقبال احمد:ہم بھی بوڑھے ہو چکے ہیں۔میری زندگی کے 40سال اس کام میں لگ گئے ہیں کہ خون ڈھونڈا جائے۔ یہاں تک کہ کسی تقریب میں جاوں تو لوگ دیکھ کر بھاگتے ہیں کہ اقبال بھائی آر ہے ہیں خون نہ مانگ لیں۔ کوئی سجاول سے آرہا ہے،پنجگور سے تربت سے ملک کے کونے کونے سے لوگ آرہے ہوتے ہیں۔ میرا تعلق اندرون سندھ سے ہے میں نے نوٹ کیا کہ امیر بچوں میں یہ مرض کہیں زیادہ ہے، وہ وراثت اور دیگر معاملوں میں زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔ ایک منٹ کا ٹیسٹ ہوتا ہے خدارا ٹیسٹ کرائیں۔ یہ تو شہر ہے اندرون سندھ مریضوں کا اِتنابُرا حال ہے کہ آپ تصور ہی نہیں کر سکتے ۔سندھ اسمبلی نے بل منظور کرا لیا ، بلا شبہ یہ بڑا کام ہے قانون سازی کا مگر ریاست اس معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں۔ بل کے مطابق شادی کے نکاح نامہ پر دولہا کےتھیلے سیمیا ٹیسٹ کااندراج لازمی کر دیا گیا۔اب 3 سال ہونے کے باوجود اس قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ، سندھ میں آج بھی شادیوں اور نکاح ناموں پرتھیلے سیمیاٹیسٹ کا اندراج نہیں ہوتا ہے ۔ دوسری جانب سندھ کے لوگ ٹیسٹ کہاں سے کرائیں گے کہ اس سادے سے ٹیسٹ کی سہولیات ہی اندرون سندھ میں کہیں موجود ہی نہیں۔
ڈاکٹر غلام سرور: میں سمجھتا ہوںکہ اصل کام ریاست کے اس بیماری کو سنجیدہ لینے کا ہے، اول یہ کہ اس کو کسی سطح کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ جامعات میں داخلے کے لیے بلڈ ٹیسٹ لازمی کر دیا جائے ۔ اسکے لیے صرف داخلہ فارم پر ایک کالم لگانا ہوگا،اس ٹیسٹ کے لیے ہم اپنی خدمات جامعات دینے کو تیار ہیں ۔