شہادت امام حسینؓ کاعظیم پیغام

197

خلافت راشدہ معیار حق ہے، صحابہ کرامؓ نے اپنی پوری زندگیاں دین حق کی پاسبانی میں گزاریں۔ خلافت راشدہ محض ایک سیاسی حکومت نہیں تھی بلکہ نبوت کی مکمل نیابت تھی، خلافت کا کام صرف یہ نہ تھا کہ حکومت کرے، ملک کا نظم و نسق چلائے، امن قائم کرے، سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام زندگی میں معلم، مربی اور مرشد کے وہ تمام فرائض انجام دیتی تھی جو رسول اللہؐ اپنی حیات مبارکہ میں انجام دیا کرتے تھے۔ ان کی ذمے داری تھی کہ دارالاسلام میں دین حق کے پورے نظام کو اس کی اصل روح کے ساتھ چلائے، اور پوری دنیا میں اہل ایمان کی اجتماعی طاقت کو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت پر لگادے، اسی لیے یہ صرف خلافت راشدہ ہی نہیں خلافت مرشدہ تھی۔ دین سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ امر بالکل عیاں رہنا چاہیے کہ اسلام میں ایسی ریاست مطلوب ہے جو محض سیاسی وجمہوری حکومت ہی نہ ہو بلکہ خلافت راشدہ کی تمام خصوصیات کی پیروی اس کی ترجیح اول ہو۔
یہ پہلو غور طلب اور جاننے سے تعلق رکھتا ہے کہ رسول اللہؐ کی عظیم قیادت، رہنمائی اور پھر خلفائے راشدین کے عظیم دور و کردار کے بعد یہ نظام خیر شخصی خواہشات کے زیر کیسے چلا گیا۔ مسلمانوں کے ریاستی نظام کے اصول اور اسلوب حکمرانی کو کیسے تبدیل کیا گیا اور کس رویہ اور طریقہ نے اسے راستے سے ہٹایا جس کی وجہ سے اسلامی تاریخ اور مسلمانوں پر خوفناک گہرے اثراتِ بد مرتب ہوئے۔ سیدنا ابوبکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان غنی اور علی کرمؓ کی خلافت کے ادوار کے اختتامی مراحل میں ریشہ دوانیاں شروع ہوئیں اور المناک واقعات رونما ہوئے لیکن کئی اختلافی مراحل سے گزر کر خلافت، اختیارات، ریاست چلانے کا عبوری مرحلہ سیدنا معاویہؓ کے ہاتھ میں آیا تو اسلامی بصیرت رکھنے والے جان گئے تھے کہ اب خلافت کے رہنما اصولوں کی بجائے شخصی بادشاہت اور اسلوب سے سابقہ درپیش ہے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ امر نقش ہے کہ سیدنا سعدؓ بن ابی وقاص جب سیدنا معاویہؓ کی بیعت ہوجانے کے بعد اْن سے ملے تو السلام علیک ایھا الملک کہہ کر خطاب کیا تو سیدنا معاویہؓ نے کہا کہ اگر آپ امیرالمومنین کہتے تو کیا حرج تھا؟ انہوں نے جواب دیا: خدا کی قسم جس طرح آپ کو یہ حکومت ملی ہے اس طریقے سے اگر یہ مجھے مل رہی ہوتی تو میں اس کا لینا ہرگز پسند نہ کرتا۔ سیدنا سعدؓ وہ عظیم مقام رکھتے تھے کہ زمانۂ فتنہ میں اْن سے کہا گیا کہ خلافت آپ کا حق ہے، یہ حق لینے کے لیے کھڑے ہوجائیں تو ایک لاکھ تلواریں آپ کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: ’’ایک لاکھ تلواروں میں سے میں صرف ایک تلوار ایسی چاہتا ہوں جو کافر پر تو چلے مگر کسی مسلمان پر نہ چلے‘‘۔ (البدایہ ، جلد 8، ص:72) حالات نے معاویہؓ کو خود ہی سمجھا دیا تھا اور ہ خود ایک مرتبہ کہہ اٹھے کہ ’’انا اول الملک‘‘ میں مسلمانوں میں پہلا بادشاہ ہوں۔ رسول اللہؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ میرے بعد خلافت 30 سال رہے گی پھر بادشاہی ہوگی۔ سیدنا معاویہؓ کا دین سے اخلاص اور جہد مسلسل میں مقام بہت بلند، شرف صحابیت میں بھی واجب الاحترام، ان کا یہ کردار اسلامی تاریخ پر نقش ہے کہ دنیائے اسلام کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا اور دنیا میں اسلام کے غلبے کا دائرہ بہت وسیع کردیا۔ اْن کی عظیم شخصیت پر جو لعن طعن کرتا ہے وہ زیادتی کرتا ہے، علم سے بے بہرہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ میدان کربلا میں دین حق کی حفاظت، خلافت کے احیاء اور اہل ایمان پر بادشاہت ملوکیت کی بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قیادت اور نظام کے قیام کے لیے نواسۂ رسول اور خانوادۂ رسول نے قربانی دی۔
امام حسینؓ کا حق اور فرض بنتا تھا کہ جب اسلام کی فکر، سیاست، خلافت، سماجی واخلاقی قدریں اور دینی اقدار پامال ہو رہی تھیں سارے نظام بابرکت کا رخ موڑا جارہا تھا تو یزید کی بیعت کرنے کی بجائے حق کے علم کو بلند کیا جاتا تاکہ اسلام کی فکر، سیاسی، سماجی اور دینی حیثیت کو غلط راستے سے بچا کر حق کی راہ پر قائم رکھا جاتا۔ اسی جرم کی پاداش میں یزید نے نشۂ اقتدار میں سب ہوش کھو کر امام عالی مقام اور خاندان پیغمبر زماں، خانوادۂ رحمۃ اللعالمین کو شہید کیا، صرف اپنی ذات کی بالادستی اور ناحق اقتدار کے لیے۔ امام عالی مقام کی شہادت ایک ایسا المناک اور درد انگیز واقعہ تھا کہ اْمت صدیوں سے آنسو بہانے کے باوجود اْن کی شہادت پر آج بھی افسردہ اور غم ناک ہے۔ سینکڑوں برس گزرجانے کے باوجود یہ زخم، غم اور واقعہ تازہ ہے۔ ابو الکلام آزاد کے بقول ’’امام حسینؓ کے جسم خونچگاں سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا اس کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم الم کا سیلاب بہا چکی ہے‘‘۔ شہادت امام حسینؓ اْمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ میدان کربلا میں جیت اور غلبہ تو یزیدی سپاہ کو ہوئی تھی جب کہ حق اور سچ یہ ہے کہ امام عالی مقام ہار کر بھی جیت گئے، شہادت دوام اور رہتی دنیا تک کے لیے عزم و استقلال کی علامت بن کر آج مسلمانان عالم کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔
بعض لوگ بڑی سادگی یا ہوشیاری سے عقل و دانش کا لبادہ اوڑھ کر تاریخ اسلام کے اس اہم ترین واقعے میں غیر معقول بلکہ معکوس طرز گفتگو اور استدلال اختیار کرتے ہیں۔ غیر سنجیدہ اور بے اعتبار و بے بنیاد روایات کا سہارا لے کر ’’حادثہ کربلا‘‘ کے ضمن میں اہانت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ ایسے دانشور عقل و فکر سے عاری، روایت اور درایت سے بیگانہ ہیں، یا فطری رجحان کے باوجود ان کی علمی وفکری جولانیاں ان کا ساتھ نہیں دیتیں اور وہ اس عظیم اور اہم ترین واقعے کی حقیقی سنگینی کا احساس وادراک کرنے سے عاری ہیں۔ جس دور کی سپاہ اور ان کے تیر و تلوار یں امام حسینؓ ایسے عظیم انسان سے انصاف نہ کرسکیں۔ اس عہد کی بیشتر روایات اور قلم کی ضوء فشانیاں کیونکر اور کیسے امام عالی مقام امام حسینؓ کے متعلق انصاف کے تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔
سیدنا حسینؓ سے عقیدت و محبت کا حق وہی لوگ ادا کرتے ہیں جو سرفروشی اور جاں نثاری کے جذبات سے سرشار ہوکر خدا کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے ہی کو اپنی سعادت جانتے ہیں۔ کربلا کی داستان یہ ہی سبق دیتی ہے کہ مردہ یزید پر ہی ماتم نہیں زندہ یزیدوں کے مقابلے پر کھڑے ہونے کے لیے یہ ہی پیغام ہے کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی زندگی باطل کے مقابلے میں جم کرکھڑے ہونے اور حق کے لیے جان عزیز کی شہادت دینے میں مضمر ہے۔
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
(خلافت و ملوکیت، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، متن اربعین امام حسینؓ، مولانا عبداللہ دانش، مضمون مولانا یوسف اصلاحی، حیاۃ الصحابہؓ: مولانا یوسف کاندھلوی سے استفادہ کیا گیا)