کراچی کی بحالی کا عزم

327

کراچی کے ہمدردوں کے درمیان مقابلے کے دوران پیپلز پارٹی نے بڑا اقدام کر کے اپنے صوبائی مشیر مرتضیٰ وہاب کو ایڈ منسٹریٹر کراچی مقرر کر دیا ۔ پیپلز پارٹی نے ایسا کر کے کوئی غلط کام نہیں کیا اسے ایٖڈ منسٹریٹر مقرر کرنے کا حق تھا اس کے لیے وہ اپنے ہی کسی پارٹی رہنما کو مقرر کرتی اور اس نے یہ کام کر ڈالا ۔ اب اہل کراچی کی مشکل حل ہو گئی ۔ کئی ماہ سے مخمصے میں تھے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کس سے بات کریں ۔ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت اس کے وفاقی وزراء اور ارکان قومی اسمبلی تھوڑے تھوڑے دن گزارنے کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ ہم کراچی کی شکل بدل دیںگے ۔ نیا کراچی بنائیںگے ۔ ترقی دیں گے اور متحدہ والے بھی اس طرح کے اعلانات کرتے ہیں جبکہ سندھ حکومت تو ہے ہی کراچی میں لیکن اب اہل کراچی کو یہ مشکل نہیں ہو گی۔ جو کرنا ہے سندھ حکومت کو کرنا ہے اب ایڈ منسٹریٹر بھی ان کا ہے اور حکومت بھی ان کی ہے کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہو گی ۔ ایڈ منسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کراچی کے لیے اختیارات کی نہیں کراچی کی بحالی کی جنگ لڑوں گا لیکن اب مرتضیٰ وہاب کسی ابہام کا شکار ہو گئے ہیں وہ کس سے جنگ لڑیں گے ۔ انہیں تو کہنا چاہیے کہ کراچی کو بحال کروں گا اور اگر گورنر عشرت العباد کی طرح ہمت ہے تو کہیں کہ نعمت اللہ خان والا کراچی لوٹا دوں گا ۔ عبدالستار افغانی والا کراچی واپس لائوں گا ۔ ان لوگوں نے جو منصفانہ نظام دیا تھا وہ واپس لائوں گا ۔ وہ ہیں بھی وکیل اور کراچی سے گہرا تعلق ہے ان کے لیے بلدیہ کراچی کو قانون کے مطاق چلانا آسان بھی ہو گا ۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ ماضی کی بات نہیں کروں گا ،مستقبل کا سوچ رہا ہوں لیکن کراچی کے لوگ ماضی کا احتساب کیے بغیر مستقبل میں داخل نہیں ہو سکتے ۔ کراچی کے لیے ماضی میں بھی جس نے کام کیا اور آج بھی جو کسی منصب ، عہدے اور سرکاری سر پرستی کے بغیر یہ کام کرنے میں مصروف ہے وہ جماعت اسلامی ہے ۔ مرتضیٰ وہاب نے اعلان کیا ہے کہ مجھے سیاسی جماعتوں کی مدد بھی چاہیے تو آگے بڑھیں اور سب کے ساتھ مل کر کام کریں جس نے کراچی کو سنوارا اس کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں ۔یہ حقیقت تو مرتضیٰ وہاب بھی جانتے ہیں کہ کراچی پیپلز پارٹی کومکمل اعتماد نہیں دیتا کچھ علاقوں سے اس کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں لیکن اس شہر میں جن لوگوں نے خدمت کی ہے اور اس شہر کو جن لوگوں نے لوٹا اور بلدیاتی اداروں کو اپنی سیاست اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا ان کا فرق تو مرتضیٰ وہاب کو معلوم ہی ہو گا ۔ جماعت اسلامی سے ان کا سیاسی اختلاف اپنی جگہ ، سیاسی اختلاف تو ان کا ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی سے بھی ہے لیکن یہ اختلاف جب مفادات کی بھینٹ چڑھتا ہے اور سیاسی اختلاط بن جاتا ہے تو پھر کرپشن کے راستے کھلتے ہیں ایک دوسرے کو نوازنے ،منانے اور ساتھ رکھنے میں ، سرکاری وسائل استعمال ہوتے ہیں ، یوںکراچی کے وسائل کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ مرتضیٰ وہاب کراچی کی بحالی کی جدو جہد کریں تو تمام سنجیدہ قوتیں ان کا ساتھ دیں گی۔لیکن اگر پیپلز پارٹی نے کراچی فتح کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ خیال دل میں رکھا کہ کراچی میں ان کا ہی میئر آنا چاہیے تو پھر کراچی کی بحالی کا اعلان یا منصوبہ بھول جائیں۔ یہ کراچی کی تباہی کا منصوبہ ہو گا ۔ اگرچہ ایم کیو ایم نے35برس میںکراچی کو مزید تباہی کے قابل نہیں چھوڑا ہے لیکن اگر پیپلز پارٹی محض چند چھوٹے مفادات کی خاطر متحدہ جیسے گروہوں کو سر چڑھائے گی تو کراچی کی بحالی کو بھول جائے ۔ اہل کراچی کو اچھی طرح یاد ہے کہ بلدیاتی دفاتر لسانی تنظیم کا دفتر بنے ہوئے تھے ۔ بلدیاتی گاڑیاں افسروں اورعہدیداروں کے ذاتی استعمال میں تھیں ۔ پارٹی بنیاد پر تقرریاں اور قواعد و ضوابط کو پامال کر کے بھرتیاں بھی کی گئیں ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی خود بھی آج کل اس قسم کے کاموں میں ملوث ہے لیکن اگر پیپلز پارٹی عزم کرلے تو ایسی قوتوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے تاکہ کراچی ایک مرتبہ پھر دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں شامل ہو سکے ۔