ایڈمنسٹریٹر کی نہیں،بلدیاتی انتخابات کی ضرورت ہے

312

ہمارے حکمرانوں کی مفاداتی سیاست کی وجہ سے اس وقت کراچی مسائل کی آماجگاہ ہے۔ یہاں زندگی اپنی فطرت سے بہت دور ہے۔ شہر کے در ودیوار اپنی تباہی وبربادی کی داستان سنا رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے اس شہر کی اہمیت بہت زیادہ ہے، لیکن اس کی یہ خوش نصیبی ایسا لگتا ہے بدنصیبی بن گئی ہے۔ کراچی شہر تجارتی و کاروباری حوالے سے اپنی مثال آپ تھا، یہ روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا… لیکن اب یہ بلدیاتی مسائل، اقتصادی سہولتوں، سماجی، سرکاری، انتظامی اور معاشی امور کی انجام دہی کے لحاظ سے دنیا کا بدترین شہر ہے۔ ماضی کا خوب صورت شہر افسوس ناک زوال کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ اس کا چہرہ صوبائی، وفاقی، شہری، فوجی اور سول حکومتوں کی اجتماعی بے حسی، سفاکی اور بدانتظامی کا شکار ہوکر آج دیدۂ عبرت نگاہ بن چکا ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تاریخ دی جاتی، لیکن جس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا، وہی ہوا کہ بلدیاتی الیکشن ملتوی کرکے، بلدیاتی نظام (جو پہلے ہی معطل ہے) کے اختیارات ختم کرکے شہر کراچی میں حکومتِ سندھ نے بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر تعینات کردیا۔ مرتضیٰ وہاب اس وقت وزیراعلیٰ سندھ کے مشیرِ قانون، ماحول، موسمیاتی تبدیلی اور کوسٹل ڈیولپمنٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، انہیں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے 2016ء میں صوبائی کابینہ میں شامل کیا تھا۔
کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے سربراہ کا چارج پہلے کمشنر کراچی کے پاس تھا، بعد ازاں اس منصب پر علیحدہ افسر تعینات کیا گیا۔ اس وقت اِس پوسٹ پر ڈی ایم جی گروپ کے افسر لئیق احمد تعینات تھے، جنہیں سبکدوش کرکے سندھ حکومت نے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سیاسی شخصیت کو بلدیہ عظمیٰ کا سربراہ تعینات کردیا۔ اس سے قبل فہیم الزماں کو بھی سیاسی حکومت کی ایما پر کراچی کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا گیا تھا۔
گزشتہ برس بلدیاتی اداروں میں منتخب نمائندوں کی مدت ختم ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے نئے بلدیاتی انتخابات کروانے کا کام نہیں ہوا۔ اس سے قبل دسمبر 2020ء میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے 21 ویں گریڈ کے افسر نوید احمد شیخ کو شہر کا کمشنر اور سیکریٹریٹ گروپ کے گریڈ 20 کے افسر لئیق احمد کو ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا گیا تھا۔ 1972ء سے 2002ء تک کے 30 سالوں کے دوران کراچی میں2 منتخب میئر، عبدالستار افغانی1979ء سے 1983ء، اور فاروق ستار1987ء سے 1992ء رہے ہیں، جبکہ ایڈمنسٹریٹر 17 رہے۔ ان 17 ایڈمنسٹریٹرز میں سے 2 پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ افسران تھے۔ باقی ایڈمنسٹریٹرز کو سیاسی بنیادوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ 1994ء میں فہیم الزماں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت کی ایما پر کراچی کے ایڈمنسٹریٹر تعینات کیے گئے تھے۔ اسی طرح اگست 1999ء میں اُس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سفارش پر مشاہد اللہ خان کو ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا تھا۔ پھر2001ء میں سابق فوجی آمر پرویزمشرف نے مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کرواکے انتخابات کرائے تو جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کراچی کے ناظم بنے تھے، اُن کا دور نظامت 2005ء تک رہا۔ یہ کراچی کا سب سے سنہری دور تھا۔ اس کے بعد مصطفیٰ کمال فروری 2010ء تک کراچی کے ناظم رہے، جس کے بعد ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی سیاسی ضرورت کے تقاضے کے مطابق 2010ء میں کمشنری نظام متعارف کرا کر کراچی کو اپنے منظورِ نظر کمشنر کے حوالے کردیا تھا۔ پھر 2016ء کے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے وسیم اختر میئر بن گئے، جو اگست 2020ء تک اس عہدے پر رہے۔ تب سے اب تک کراچی کا انتظام ایڈمنسٹریٹر کے پاس ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابی عمل سے دور رہیں، جس کا اندازہ منتخب نمائندوںکی تعداد سے بخوبی ہوجاتا ہے۔
اس شہر کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے اسے کبھی کچھ دینے کے بجائے برباد کرنے میں عالمی ایجنڈے اور ضرورت کے تحت اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہے۔ یہ جب جب اس شہر پرمسلط رہے ہیں یہاں کے لوگوں کی اذیتوںاور تکلیفوں میںاضافہ ہواہے ۔، ساتھ ہی ان کا کمال یہ ہے کہ یہ خوب شور بھی مچاتے ہیں اورمگرمچھ کی طرح آنسو بھی خوب اور تواتر سے بہاتے ہیں۔ جب کہ اس شہراور اس شہر کے لوگوں کو اگر کسی نے اپنا سمجھا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کے کارکنان نے اپنا وقت، پیسہ اور جانیں دے کر شہر اور اس کے لوگوں کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ جماعت اسلامی کو میئر عبدالستار افغانی کے دور میں خدمت کا موقع ملا تو اس نے یہاں کے لوگوں کو بڑے بڑے منصوبے دیے، جب نعمت اللہ خان کو موقع ملا تو انہوںنے تباہ شدہ شہر کو ایک بار پھر کم وسائل اور کم اختیارات کے باوجود جذبے، لگن اور ایمان داری کی طاقت سے ایک پُررونق شہر میں تبدیل کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرتضیٰ وہاب کی تعیناتی پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کے بیان کو پذیرائی ملی ہے، کیونکہ وہ کراچی اور اہلِ کراچی کے جذبات کا اظہارکررہے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پیپلز پارٹی ایک خاص مائنڈ سیٹ کے مطابق کام کررہی ہے، اس کی جانب سے کراچی کا ایڈمنسٹریٹر سیاسی بنیاد پر بنایا جانا کراچی کے عوام کے ساتھ زیادتی اور غیر منصفانہ عمل ہے۔ اپنی پارٹی کا ایڈمنسٹریٹر لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کراچی کی خدمت کرے، اسے فتح کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلدیاتی انتخابات کروائے جاتے اور مسائل کے حل کے لیے کام کیا جاتا، لیکن سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کراچی کے مسائل حل نہیں کرنا چاہتیں جو ملک کا سب سے بڑا اور 3 کروڑ کی آبادی کا شہر ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا المیہ ہے کہ وہ کراچی پر قبضہ کرکے اسے لوٹنا تو چاہتی ہے لیکن کچھ دینے کو تیار نہیں۔ انہوں نے درست طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ایک سال میں کراچی میں پیپلز پارٹی نے اپنے من پسند ایڈمنسٹریٹر لگائے، پھر کیا وجوہات تھیں کہ شہر کے گمبھیرمسائل حل نہ ہوسکے؟ پیپلز پارٹی کے خمیر میں کراچی دشمنی موجود ہے، اسی لیے اب سیاسی بنیاد پر ایڈمنسٹریٹر تعینات کرکے وہ کراچی کو مزید لوٹنا چاہتی ہے۔ اس وقت سندھ کی صوبائی حکومت بھی اختیارات دینے کے بجائے کراچی پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ سندھ میں 13 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، لیکن اس نے کراچی کے لیے سوائے اعلانات، دعوئوں اور وعدوں کے کچھ نہیں کیا۔
مقامی حکومتوں کا نظام کیونکہ صوبائی معاملہ ہے اور وفاق کا اس میں کوئی کردار نہیں، یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت انتخابات کروانے سے انکاری ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا بھی غلط نہیںہوگا کہ عمران خان جو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی بہت باتیں کرتے ہیں، اُن کی جماعت جن صوبوں میں برسراقتدار ہے وہاں بھی اب تک بلدیاتی انتخابات نہیںہوسکے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مقامی حکومتوںکا انتخاب اور ان کی مکمل خودمختاری ہی مسائل کا حل ہے۔ کیونکہ مقامی نظام حکومت کی مضبوطی کے بغیر صوبائی خود مختاری کا تصور بھی نہیں ہے۔ مقامی نظامِ حکومت کیونکہ لوگوں کی رسائی میں ہوتا ہے، اور منتخب نمائندوں سے لوگوں کا ملنا، بات چیت کرنا اور اپنے مسائل اُن کے سامنے پیش کرنا آسان ہوتا ہے، اور ایک طرح سے وہ روزانہ کی بنیاد پر توجہ دلانے اور احتساب کا کام بھی کررہے ہوتے ہیں، جس سے ہماری سیاسی جماعتیں بھاگتی ہیں، اور یہی پیپلزپاٹی کی حکومت کررہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر مقامی حکومتوں کے شفاف انتخابات کرائے جائیں اور انہیں سیاسی، انتظامی اور مالی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ خودمختار ی بھی دی جائے، کیونکہ کراچی کے مسائل کا حل مقامی منتخب نظامِ حکومت سے ہی جڑا ہوا ہے۔