برطانوی حکومت کا متعصبانہ فیصلہ

265

برطانوی حکومت نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف اپنے تعصب اور بھارت نواز رویئے کا مظاہرہ کیا ہے، بین الاقوامی سفر کے حوالے سے برطانیہ نے جس نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے، اس میں کورونا کے پیش نظر برطانیہ میں داخلہ کے لیے پہلے سے عائد پابندیاں نرم کر کے بھارت اور بعض خلیجی ممالک کو ’’امبرلسٹ‘‘ میں شامل کر دیا گیا ہے جب کہ پاکستان کو حسب سابق ’’ریڈلسٹ‘‘ ہی میں رہنے دیا گیا ہے اس نئی پالیسی پر آٹھ اگست سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ کورونا سے بھارت جس بری طرح متاثر ہے، اس کی سنگینی کسی سے پوشیدہ نہیں، بھارت میں کورونامتاثرین کی تعداد اور اس سے اموات کی شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہے، بھارت میں اثر پذیر کورونا وائرس کی قسم بھی پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز بتائی جا رہی ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں سوا تین کروڑ کے قریب شہری کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں جب کہ باقاعدہ رجسٹر شدہ ہلاکتوں کی تعداد بھی سوا چار لاکھ سے زیادہ ہے، وہاں ہر روز نئے کورونا متاثرین کی اوسط تعداد پینتالیس لاکھ کے قریب ہے ایک روز قبل کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک دن میں 562 بھارتی باشندے کورونا کے باعث موت سے ہم آغوش ہوئے اور اسی ایک دن میں بیالس ہزار 625 لوگ کورونا سے متاثر ہو کر ہسپتالوں میں پہنچے یوں بھارت میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی اوسط شرح بیس فیصد ہے اور یہ دنیا بھر میں کورونا کی تباہی سے دو چار ہونے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس کے مقابل پاکستان کی صورت حال بھارت سے کہیں بہتر ہے یہاں حکومتی اقدامات اور عوام کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کے سبب کورونا متاثرین کی زیادہ سے زیادہ شرح چودہ فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، عالمی برادری نے پاکستان کی جانب سے کورونا سے بچائو کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملی کو بڑے پیمانے پر سراہا ہے، اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ صحت نے کورونا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی ہے اور اپنی تازہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان بہت اچھے طریقے سے کورونا سے نمٹ رہا ہے اس لیے دوسرے ممالک کورونا کے خلاف بچائو کی تدابیر اختیار کرنے میں پاکستان کی تقلید کریں۔ عالمی ادارۂ صحت کی یہ رپورٹ پاکستان کی کارکردگی کو کھلا خراج تحسین ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود حکومت برطانیہ کی یک طرفہ سوچ اور تعصب کا عالم یہ ہے کہ بھارت کو ’’امبرلسٹ‘‘ میں شامل کر کے اس کے شہریوں کو برطانیہ میں داخلے کی صورت میں قرنطینہ کی شرط سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے اور پاکستان کو بدستور ’’ریڈ لسٹ‘‘ میں رکھ کر یہاں کے شہریوں کو برطانیہ داخل ہونے پر ہوٹل میں قرنطینہ کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے اس پر مزید ستم یہ کہ بارہ اگست سے ریڈ لسٹ میں شامل ممالک سے آنے والوں کے لیے مزید رقم قرنطینہ کی مد میں وصول کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ سب سے قدیم جمہوریت ہونے کی دعوے دار اور عالمی سطح پر یکساں انسانی حقوق و برابری کی علم بردار برطانوی حکومت کا یہ تازہ حکم نامہ اس قدر یک طرفہ، غیر منصفانہ، عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے تمام اصولوں کے سراسر منافی ہے کہ کسی بھی سطح پر اس کا دفاع دلائل کی بنیاد پر کرنا ممکن نہیں ہو گا، یہی وجہ ہے کہ خود برطانیہ کے اندر سے اس کے خلاف موثر آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ بولٹن سائوتھ ایسٹ کی رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی اور لیٹن نارتھ سے تعلق رکھنے والی لیبر پارٹی کی رکن سارا اوون نے برطانوی حکومت کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جب کہ پاکستان نژاد رکن پارلیمنٹ نازشاہ نے دلائل کے ذریعے اس فیصلے کے نقائص کو نمایاں کیا ہے، انہوں نے واضح کیا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ برطانوی فیصلہ سازوں نے اپنے قرنطینہ ٹریفک لائٹ سسٹم میں جانبدارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے بجا طور پر برطانوی حکمرانوں سے استفسار کیا ہے کہ جب مسلمہ بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا متاثرین کی شرح چودہ اور بھارت میں بیس فیصد ہے تو آخر کس بنیاد پر بھارت کو قرنطینہ سے استثنیٰ دیا گیا ہے اور پاکستان پر یہ پابندیاں برقرار رکھی گئی ہیں۔ انہوں نے اس طرح کے منفی اور غیر حقیقت پسندانہ رویہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے متنبہ کیا کہ قبل ازیں بھی برطانوی حکومت نے سائنسی اور تکنیکی حقائق کونظر انداز کر کے سیاسی پسندیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے اس قسم کا فیصلہ کیا تھا تو برطانیہ کے شہریوں کو اس کے منفی نتائج بھگتنا پڑے تھے، ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا تھا اور بھارت کے حوالے سے پہچانا جانے والا کورونا کا ڈیلٹا وائرس برطانیہ میں سب سے زیادہ مسائل کا سبب بن کر سامنے آیا تھا۔ برطانیہ میں حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے جس میں پاکستان کو ’’ریڈلسٹ‘‘ سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے یہ پٹیشن سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے، فواد چودھری کی جانب سے شیئر کی گئی اس پٹیشن پر آن لائن دستخط کرنے کا استحقاق صرف برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو حاصل ہے اور ان کی جانب سے اب تک دستخط کنندگان کی تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ سکی ہے اور برطانوی پارلیمنٹ میں اس پٹیشن کو زیر بحث لانے کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم ایک لاکھ افراد اس پر اپنے الیکٹرانک دستخط ثبت کریں۔ پٹیشن میں پاکستان کو ’’ریڈ لسٹ‘‘ سے ہٹانے کی استدعا کے ساتھ برطانیہ جانے کے منتظر پاکستان میں مجبوراً رکے ہوئے ہزاروں لوگوں اور ان کے اہل خانہ کی مالی مشکلات اور ذہنی پریشانیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی جلد از جلد اس پٹیشن پر مطلوبہ تعداد میں الیکٹرانک دستخط کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر برطانوی پارلیمنٹ اس معاملہ کو زیر بحث لا کر اپنی حکومت کے غیر منصفانہ رویے سے پیدا شدہ صورت حال کے ازالہ کے لیے اقدامات کی ہدایات جاری کر دے گی تاکہ پاکستان میں رکے ہوئے برطانیہ جانے کے خواہش مند لوگوں کی مشکلات اور مسائل کا خاتمہ ہو سکے تاہم اس سارے معاملہ کا یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے اور پاکستانی حکومت کی فوری اور سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے کہ حالات کی اس خرابی میں جہاں برطانوی فیصلہ سازوں کے متعصبانہ رویہ اور جانبدارانہ طرز عمل کا بہت کچھ عمل دخل ہے وہیں یہ ہماری سفارتی ناکامی بھی ہے اور ہمارے دفتر خارجہ کی نا اہلی اور کوتاہیوں کا بھی اس میں خاصا اہم کردار ہے، یہ شکایت کوئی نئی نہیں ہے کہ بیرون ملک پاکستان کے سفارت خانے اپنے اپنے ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل اور مشکلات کے حل پر توجہ دینے کی بجائے بیرون ملک پاکستانیوں سے اس طرح کا حاکمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جس کی شکایت پاکستان کے اندر بیورو کریسی سے عام ہے، دفتر خارجہ اگر بیرون ملک سفارتحانوں میں متعین عملہ کی مناسب تربیت کا اہتمام کرے، ان کی ترجیحات درست کرنے اور انہیں عوام کے حاکم کی بجائے خادم بن کر اپنے فرائض ادا کرنے پر آمادہ کر سکے تو برطانوی حکومت کے حالیہ فیصلہ سے پیدا شدہ صورت حال اور دنیا کے دیگر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو در پیش اسی طرح کے بہت سے مسائل سے بآسانی نجات مل سکے گی۔