سندھ حکومت کا لاک ڈائون کا فیصلہ

245

حکومتی بدانتظامی اور غیر سنجیدگی کے باعث سندھ اور بالخصوص کراچی میں کورونا کی چوتھی ڈیلٹا لہر نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہواہے۔پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کورونا وائرس کی ڈیلٹا قسم کے پھیلائو کوجواز بناتے ہوئے کراچی سمیت صوبے بھر میں لاک ڈائون کا نفاذکردیا ہے ،یہ مکمل لاک ڈائون ہے یا جزوی لاک ڈائون ہے جو بھی عنوان ہو پہلے کی طرح ہی ہے۔ لاک ڈائون کے بعد بازار، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ اور سرکاری و نجی دفاتر بند، امتحانات ملتوی،بینک، بندرگاہ، پیٹرول پمپس ، اسٹاک ایکسچینج ، کریانہ، بیکری، سبزی، تندور ، گوشت کی دکانیں اورصحت سے متعلق شعبے کھلے رہیں گے، ریسٹورنٹ سے صرف ڈیلیوری کی اجازت،ڈبل سواری پر پابندی لگا کر واپس لے لی گئی ہے۔سندھ اور وفاق کے درمیان بیانات کی جنگ جاری ہے اور اس معاملے میں بھی دونوں ایک پیج پر نہیںہیں، وفاقی وزیر فواد چودھری کاکہناہے کہ کسی صوبے کو NOC کے بغیر فیصلے کی اجازت نہیں۔دوسری طرف حکمران لاک ڈائون لگانے ،نہ لگانے اور کورونا کی پھیلتی ہوئی لہر کو روکنے میں کتنے سنجیدہ ہیں اس کاا ندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے سندھ حکومت کے لاک ڈائون کے فیصلے پر اعتراض کیا تو ناصر شاہ نے وفاقی وزیر کی ٹوئٹس میں اردو کی غلطیاں نکالیں اور کہا کہ آپ لاک ڈائون کا جائزہ لیں، ہم آپ کی صلاحیتوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔لاک ڈائون کے نفاذ کے بعد پولیس نے مختلف سڑکوں پر ناکے لگادیے ہیں جس کے بعد سفاری پارک صدر شارع فیصل، ملیر ہالٹ، ایف ٹی سی، تین ہٹی، گلشن چورنگی، لیاقت آباد اور دیگر مقامات پر ٹریفک کی صورت حال اور زیادہ خراب ہورہی ہے جگہ جگہ ناکے کی وجہ سے ہجوم دیکھنے میں آیا جو خود کورونا کو پھیلانے کاباعث بن سکتا ہے دوسری طرف شہر میں ہنگامی بنیادوں پر مریضوں کو پہنچانے والی ایمبولینس کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے .سندھ حکومت کے موجودہ اقدامات پر معاشی بدحالی کا شکار عوام سخت بے چین ہیں،تاجر اور سیاسی جماعتیں سب یک آواز ہوکر اس کو غیر دانش مندانہ فیصلہ قراردے رہی ہیں۔ کراچی کے تاجروں نے حکومت سندھ کے لاک ڈائون کے فیصلے کو مسترد کردیا۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے سندھ حکومت سے لاک ڈائون کے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ایک بیان میں ایف پی سی سی آئی کے صدر ناصر مگوں کا کہنا تھا کہ انڈسٹر ی کو ہفتے میں 7 دن کھلا رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے، ویکسینیشن کے ساتھ کاروبار اور معاشی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے، صنعتوں اور کاروبار کوتالا لگا تو تنخواہیں ادا نہیں کی جاسکیں گی۔تاجر ایکشن کمیٹی کے رہنما رضوان عرفان کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومتی وفد کو مکمل لاک ڈائون نہ کرنے اور کاروبار کے اوقات بڑھانے کی تجویز دی تھی۔آل پاکستان انجمن تاجران نے بھی لاک ڈائون کا فیصلہ مسترد کردیا اور تاجر رہنما جاوید قریشی کا کہنا ہے کہ ایس او پیزپرعمل کررہے ہیں،کاروباری بندش قبول نہیں،سندھ حکومت لاک ڈائون کا فیصلہ واپس لے۔امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں مکمل لاک ڈائون نافذ کیے جانے کے فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ “کورونا وائرس کی چوتھی لہر کی اطلاعات کافی دنوں سے آرہی تھیں لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت نے ہمیشہ کی طرح عوام بالخصوص مزدور طبقے کے روزگارکے لیے کسی قسم کاکوئی متبادل انتظام نہیں کیااور نہ ہی ویکسینیشن کے عمل کا بہتر نظام بنانے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات کیے گئے”۔یہ بات درست ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ویکسینیشن کے نظام کو کورونا کی روک تھام کے لیے بروقت اور مؤثر بنایا جاتا تو آج عوام طویل لائنیں لگا کر اذیت کا شکار نہ ہوتے،کورونا سے بچائو کے لیے ڈاکٹرز اور حکومت مسلسل سماجی فاصلے کی ہدایت کررہے ہیں، لیکن دوسری جانب سندھ حکومت کے مختلف سخت اقدامات کی اطلاعات کے بعد ویکسینیشن مراکز میں شدید اڑدہام ہے اور کورونا ایس اوپیز کی پابندیوں کا خیال کیے بغیر عوام طویل لائنیں لگانے پر مجبور ہیں ایکسپو سینٹر کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے وہاںکوئی بڑ اجلسہ ہورہا ہے۔کورونا کی پہلی لہر میںسندھ حکومت کے لاک ڈائون کا خیر مقدم کیا گیا تھا لیکن آج کی صورت حال کا تقاضا کچھ اور تھا مگر سندھ اور وفاق دونوںنے کوئی قابل ذکر عملی کام نہیںکیا،ڈان کی خبر ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ پر پہنچنے والے کم از کم 40 بین الاقوامی مسافر، جو کووڈ 19 سے متاثر پائے گئے تھے، یا تو طبی تجاویز کے خلاف فرار ہو گئے یا چھوڑ دیے گئے یا سرکاری قرنطینہ سہولیات سے رہا ہوگئے۔ متاثرہ افراد کے ایک بھی کیس کی باضابطہ طور پر پیروی اور تفتیش نہیں کی گئی حالانکہ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ بعد میں ڈیلٹا قسم کے کیسز پائے گئے۔
اس پس منظر میں حافظ نعیم الرحمن کا یہ سوال بالکل درست ہے کہ ” سندھ حکومت بتائے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے موقع پر معاشی طور پر متاثر ہونے والے عوام کے لیے اربوں روپے کے کورونا ریلیف فنڈکہاں استعمال کیے گئے؟اور یہ بھی بتایا جائے کہ حالیہ لاک ڈائون کے بعد کراچی میں بسنے والے ہزاروں یومیہ کمانے والے اور دیہاڑی دار مزدور وں کی مالی امداد کے لیے کیا اقدامات کیے گئے کیونکہ مہنگائی و بے روزگاری کے باعث عوام کی اکثریت شدید مشکلات و پریشانیوں کا شکار ہے اور انہیں بنیادی ضروریات زندگی کے لیے مواقع میسر نہیں آرہے ہیں۔”اس وقت عملی صورت حال یہ ہے کہ سندھ سیکرٹریٹ، کے ڈی اے حسن اسکوائر یا حکومت کا کوئی بھی دفتر ہو وہاںایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا ہے۔یہاں تک کہ لاک ڈائون کے نام پر جو پولیس والے لوگوں کو چیک کررہے ہیںوہ خود ماسک کے بغیر ہیں۔تو اصل بات یہ ہے کہ اگر سندھ حکومت نے ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے اور علاج معالجہ کی صورت حال پر توجہ دی ہوتی اور اس کے بعد اول تو یہ صورت حال پیدا نہیںہوتی اگر ہوتی بھی اور اس کے بعد لاک ڈائون کا فیصلہ انتہائی مجبوری میں کرنا بھی ہوتا تو شاید یہ رد عمل سامنے نہیں آتا اس وقت تمام ایسے اقدام سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو لوگوںکی تکلیف بڑھائے ،اس میں کوئی 2 رائے نہیںکہ زندگی سب سے اہم ہے اور معیشت دوسرے نمبر پر لیکن حکومت سندھ کے غلط فیصلے سے اس وبا کو ختم نہیںکیا جاسکتا اس کے لیے مستقل نوعیت کے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں حکومت ناکام ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت ایسالائحہ عمل مرتب کرے کہ عام آدمی کاروزگار اور کاروبارکم سے کم متاثرہو۔
دوسری طرف تاجروںنے جو ایس اوپیز سے متعلق دعوے کیے ہیں، انہیں بھی ان پر عمل کرکے دکھانا چا ہیے کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بازار اور مال کھلتے ہیںتو تما م ایس او پیز کی خلاف ورزی ہی نظر آتی ہے اس کیساتھ عوام جو ابھی بھی”کورونا حقیقت یا فسانہ؟” کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں نتیجہ کے طور پر وبائی مرض کی ہلاکت خیزی میں تیزی آتی جارہی ہے، لیکن اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا ایک حقیقت ہے، اور لوگ ہمارے اردگرد متاثر ہوکر مر بھی رہے ہیں۔اس کی ڈیلٹا قسم توقع سے زیادہ متعدی ہے،ڈیلٹا قسم سے متاثر ہونے والا کوئی بھی شخص آرام سے دیگر 8 افراد کو متاثر کر سکتا ہے اور یہ چکن پاکس کی طرح تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
کیونکہ ابھی تک سائنس دان یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس وبا کا خاتمہ کب اور کیسے ہوگا۔لگتا ہے یہ برسوں کا معاملہ ہے، لہٰذا سب کو مل کراپنے حصے کاکام کرنا ہوگا ، احتیاط کے ساتھ دعا اوررجوع الی اللہ ہی سے نجات مل سکتی ہے اوررجوع الی اللہ کا مطلب تو بہ واستغفار یا انابت الی اللہ ہے۔