قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ

348

 

(نیز وہ مال) اْن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اْس کے رسولؐ کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں یہی راستباز لوگ ہیں۔ (اور وہ اْن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں مقیم تھے یہ اْن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اْن کو دیدیا جائے اْس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (سورۃ الحشر:8تا9)

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شخص نے جس نے (بنی اسرائیل میں سے) کوئی نیک کام کبھی نہیں کیا تھا، وصیت کی کہ جب وہ مر جائے تو اسے جلا ڈالیں اور اس کی آدھی راکھ خشکی میں اور آدھی دریا میں بکھیر دیں کیونکہ اللہ کی قسم اگر اللہ نے مجھ پر قابو پا لیا تو ایسا عذاب مجھ کو دے گا جو دنیا کے کسی شخص کو بھی وہ نہیں دے گا۔ پھر اللہ نے سمندر کو حکم دیا اور اس نے تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی۔ پھر اس نے خشکی کو حکم دیا اور اس نے بھی اپنی تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے عرض کیا اے رب! تیرے خوف سے میں نے ایسا کیا اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا‘‘۔ (بخاری)