اقبال : فارسی کلام

174

دنیا کے نظام کی بنیاد خودی
وسعت ایام جولانگاہ او
آسمان موجے ز گرد راہ او

مطلب: ساری کائنات کا پھیلائو اس کی دوڑ کا میدان ہے، آسمان اس کے راستے کی گرد کی ایک لہر ہے۔

گل بجیب آفاق از گلکاریش
شب ز خوابش، روز از بیداریش

مطلب: کائنات نے اس کی گل کاری کے سبب دامن میں پھول سمیٹ رکھے ہیں۔ رات اس کی نیند کا اور دن اس کی بیداری کا نام ہے۔

شعلہ ی خود در شرر تقسیم کرد
جز پرستی عقل را تعلیم کرد

مطلب: اس (خودی مطلق یا ذات خداوندی) نے اپنے شعلے کو چھوٹی چھوٹی چنگاریوں میں بانٹ دیا۔ اس طرح عقل کو جز ہی پر توجہ رکھے رہنے کی تعلیم کی (اور عقل کو جزو پرستی کی تعلیم دی)۔

خود شکن گردید و اجزا آفرید
اندکے آشفت و صحرا آفرید

مطلب: اس نے اپنی ذات کو توڑ کر حصے یا اجزا پیدا کر لیے کچھ دیر کے لیے وہ بکھری (اپنے آپ آشفتگی طاری کی) تو صحرا کی صورت پیدا کر دی۔