ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے اسلامی و علمی کارنامے

693

ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم عالم اسلام کی ایک بہت بڑی شخصیت، علوم اسلامیہ کے نہایت عظیم، بڑے صاحب علم اسکالر تھے جنہوں نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں بہت عمدہ ترجمہ اور تفسیر لکھی۔ اس تفسیر کے اب تک بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ’’تعارف اسلام‘‘ کے نام سے ایک عظیم کتاب تصنیف کی جس کی دنیا میں بائیس زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹرمحمد حمید اللہ 19 فروری، 1908 کو مملکت آصفیہ کے شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آ پ کے والد محمد خلیل اللہ خود بھی صاحب علم و ادب اور بڑے اسکالر تھے۔ ڈاکٹر صاحب اردو، عربی، فرانسیسی، جرمن، قدیم و جدید ترکی، اطالوی، فارسی، انگریزی اور روسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ آپ نے سات زبانوں میں تحریر و تحقیق کا کام کیا۔ انگریزی اور اردو کے علاوہ انہوں نے فرانسیسی، جرمن، عربی، فارسی اور ترکی زبان میں بھی مضامین اور کتابیں لکھیں۔ مختلف زبانوں میں ساڑھے چار سو کتابیں اور نو سو سینتیس علمی مقالے لکھے۔ آپ نے تحقیقی مقاصد کے لیے متعدد اسلامی اور یورپی ممالک کا بھی دورہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ’عہد نبوی کے میدان جنگ‘ نامی کتاب کے لیے تاریخی مواد اکٹھا کرنے کے لیے نجد و حجاز کے میدانوں کا بھی سفر کیا۔ یہ کتاب جب انگریزی زبان میں شائع ہوئی تو اس میں نقشے وغیرہ بھی شامل تھے لیکن افسوس کہ اردو کے ناشرین نے اس امر کا خیال نہ رکھا اور اسے درسی کتب کے حجم میں شائع کر کے نقشے وغیرہ حذف کر دیے۔
سیدنا ابو ہریرہؓ کے شاگرد ہمام ابن منبہ کے صحیفے کی تدوین کا کام ڈاکٹر حمید اللہ کا بہت بڑا کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ فرانسیسی زبان میں ان کے ترجمہ قرآن کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ آپ نے فرانسیسی زبان میں سیرت نبوی بھی تحریر کی جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ آپ نے امام محمد شیبانی کی کتاب السیر اور شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کا فرانسیسی ترجمہ بھی کیا۔ آپ کے ہاتھ پر چالیس ہزار غیر مسلم کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوئے۔ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم مولانا سیدابواعلیٰ مودودیؒ کی دینی و علمی خدمات کے بڑے معترف تھے اور 1932 میں حیدر آباد میں مولانا مودودیؒ کے زیر ادارت ماہنامہ ترجمان القرآن باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے۔ علامہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ 1946ء میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ (سفیر) مقرر ہوئے۔ 1948ء میں حیدرآباد پر بھارتی پولیس اور فوجی کارروائی کے بعد پیرس میں ہی رہ کر جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ وہ سقوط حیدرآباد کو بہت بڑا قومی سانحہ قرار دیتے تھے چنانچہ انہوں نے ریاست حیدرآباد کے تحفظ اور عالمی برادری میں اس کی نمائندگی کی غرض سے ’’حیدرآباد لیبریشن سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آپ نے فرانس کی شہریت کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ مجھے اپنے وطن کی سرزمین سے محبت ہے۔
1950 میں پاکستان کا پہلا آئینی و قانون مسودہ اور قرارداد مقاصد کی تیاری کے لیے پاکستان نے جہاں دنیا بھر کے اہم علما سے رابطہ کیا انہی میں ڈاکٹر حمید اللہ بھی شامل تھے اور آپ نے قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ اس سلسلے میں کراچی میں قیام کیا۔ آپ نے 1952ء سے 1978ء انقرہ اور استنبول سمیت ترکی کی مختلف جامعات میں بطور مہمان استاد خدمات انجام دیں۔ آپ بیس سال سے زائد عرصے تک فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق سے وابستہ رہے۔ صدر جنرل ضیاء الحق شہید کی دعوت پر ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم 1980 میں بہاولپور تشریف لائے اور انہوں نے جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں اسلام کے مختلف موضوعات پر طلبہ کو لیکچر دیے۔ ان لیکچروں پر مشتمل ’خطبات بہاولپور‘ کے نام سے ایک کتاب شائع ہو چکی ہے۔ خصوصاً ان کا پانچواں خطبہ ’’قانون بین الممالک‘‘ ایسا موضوع ہے جو عام طور پر دینی درسگاہوں کے طالب علموں کی دسترس سے باہر ہے۔
پاکستان کی ایک اور عظیم علمی و دینی شخصیت سید عبدالعزیز شرقی مرحوم صدر ضیاء الحق شہید کی دعوت پر 1986 میں ملتان تشریف لائے تو انہوں نے راقم الحروف سے ایک ملاقات میں بتایا کہ ایک بار جنرل ضیاء الحق فرانس کے دورے پر گئے ہوئے تھے اور پیرس میں مقیم تھے تو انہوں نے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم سے رابطہ کیا اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ڈاکٹر صاحب کو لانے کے لیے سفارت خانے کی گاڑی بھیجی گئی تو ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کرگاڑی واپس کر دی کہ میں ملاقات کے لیے بس میں بیٹھ کر آئوں گا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ وہ پیرس میں ایک نو منزلہ عمارت کے کمرے میں رہائش رکھتے تھے اور روزانہ بس میں بیٹھ کر پیرس کی لائبریری میں جاتے اور بس کے ذریعے ہی واپس اپنی قیام پر تشریف لے جاتے۔ سید عبدالعزیز شرقی مرحوم نے مزید انکشاف کیا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو پاکستان آنے کے لیے جہاز کا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ فراہم کیا گیا مگر انہوں نے یہ ٹکٹ واپس کر دیا اور فرمایا کہ وہ پی آئی اے جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کر یں گے۔ میں یہاں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ سید عبدالعزیز شرقی صاحب تقسیم ہند سے قبل جالندھر (مشرقی پنجاب) میں مقیم تھے اور اپنے بڑے بھائی سید عبدالحمید شرقی کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کی تھی جب علامہ شبیر احمد عثمانی دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس دیا کرتے تھے۔ شرقی صاحب تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے کافی عرصہ تک ملتان میں مقیم رہے اور انہوں نے 1948 میں پہلا حج کیا۔ اس وقت عبداللہ ہارون کی جہازراں کمپنی نے کام شروع کیا تھا۔ شرقی صاحب مرحوم نے بطور مہمان خصوصی اس جہاز کے ذریعے کراچی سے جدہ اور حج کی ادائیگی کے بعد جدہ سے واپسی پر مہمان اعزاز کے طور پر اپنا سفر کیا۔ اس کے بعد شرقی صاحب متواتر کئی سال باقاعدگی سے فریضہ حج ادا کرتے رہے۔
مولانا سیدابواعلیٰ مودودیؒ نے اپنی جیل سے رہائی کے بعد 1956میں فریضہ حج ادا کیا تھا تو شرقی صاحب کو اپنا معلم بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ شرقی صاحب حضور کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بہت عمدہ درود و سلام لکھتے اور اکثر خصوصی محافل میں بڑی خوش الحانی اور سوز کے ساتھ درود سلا م پڑھا کرتے تھے۔ پاکستان کے پہلے سیکرٹری خزانہ اور نیشنل بینک کے سابق سربراہ ڈاکٹر ممتاز حسن اور جنرل ضیاء الحق ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ شرقی صاحب نے کئی سال مدینہ منورہ میں قیام کے بعد رحلت فرمائی تو مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کو 1985ء میں اعلیٰ ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا۔ آپ نے اعزاز کے ساتھ ملنے والی تمام رقم (ایک کروڑ کروپے) بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی کو عطیہ کردی۔ اِس جامعہ کا کتب خانہ (لائبریری) ڈاکٹر حمید اللہ کے نام سے موسوم ہے۔ راقم الحروف یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتا ہے کہ سب سے پہلے مولانا سیدابواعلیٰ مودودیؒ کو شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا تھا اور انہوں نے ایوارڈ میں ملنے والی ایک کروڑ روپے کی رقم لاہور میں دینی و علمی تحقیقی ادارے کو بطور عطیہ دے دی تھی۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے 17 دسمبر 2002ء کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن ول میں انتقال کر گئے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی وفات بلا شبہ پورے عالم اسلام کے لیے صدمہ کا باعث ہے اور علمی دنیا کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی علمی ودینی خدمات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔