رسائل و مسائل

حضر میں جمع بین الصلوٰتین
سوال: کیا حضر میں بھی ظہر و عصر اور مغرب وعشا کو جمع کیا جاسکتا ہے؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ کچھ احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ براہ کرم صحیح صورت حال سے مطلع فرمائیں۔
جواب: قرآن کریم میں ہے : ’’نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیٔ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے‘‘۔ (النساء: 103)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان پر نمازیں ان کے اوقات میں فرض کی گئی ہیں۔ کسی نماز کو اس کا وقت شروع ہونے سے پہلے نہیں پڑھا جاسکتا اور اگر اس کے وقت میں اسے ادا نہیں کیا جائے گا تو وہ قضا ہوجائے گی۔
یہ بات درست ہے کہ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک مرتبہ بغیر کسی عذر کے حضر میں دونمازیں جمع کی ہیں۔
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہؐ نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے، ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں‘‘۔ ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ آپؐ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا: آپؐ چاہتے تھے کہ میری امت میں سے کوئی شخص مشقت میں نہ پڑے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین ، باب الجمع بین الصلوٰتین فی الحضر ) صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ’سفر‘ کی جگہ ’بارش‘ کا لفظ ہے۔
اس حدیث سے حضر میں جمع بین الصلوٰتین پر استدلال کرتے وقت یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ حضرت ابن عباسؓ نے صرف ایک موقع پر رسول اللہؐ کے ایسا کرنے کی روایت کی ہے۔ پوری حیاتِ طیبہ میںکسی اور موقع پر آپؐ سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ خود اس حدیث کے راوی ابن عباسؓ سے ثابت نہیں ہے کہ وہ حضر میں جمع بین الصلوٰۃ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے صرف ایک موقع پر کسی شدید ضرورت کے تحت ایسا کیا تھا، ورنہ آپؐ نمازوں کو ان کے اوقات پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔
٭…٭…٭
کیا طلاق ہو گئ
کیا طویل عرصے تک شوہر سے علیحدہ رہنے سے طلاق ہوجائے گی؟
سوال: ایک عورت شوہر سے روٹھ کر بیرونِ ملک چلی گئی۔ دس سال تک ان کے درمیان فون پر لڑائی چلتی رہی۔ عورت کا اپنے شوہر سے اصرار تھا کہ دوسری بیوی کو طلاق دو۔ ایک موقع پر میاں بیوی دونوں ایک شہر میں تھے۔ بچوں نے انہیں ملوانے کی کوشش کی ، مگر بیوی تیار نہ ہوئی۔ اس نے بچوں کو برا بھلا کہا اور شوہر کو گالیاں دیں۔ اس صورت حال میں کیا میاں بیوی کے درمیان طلاق ہوگئی یا ابھی کچھ گنجائش ہے؟
جواب: نکاح ایک معاہدہ (Agreement) ہے۔ جب تک اسے شعوری طور پر ختم نہ کیا جائے وہ ختم نہ ہوگا۔ طلاق کے ذریعے سے اس معاہدے کو ختم کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’اس (مرد) کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے‘‘۔ (البقرہ: 237)
بیوی کے لمبے عرصے تک شوہر سے علیحدہ رہنے یا اس کے اپنے شوہر کو برا بھلا کہنے سے طلاق نہیں ہوجاتی۔ اس پر تمام فقہا کا اتفاق ہے۔
٭…٭…٭
میراث کا ایک مسئلہ
سوال: تین بھائی اور چار بہنوں میں وراثت کی تقسیم کا تناسب کیا ہوگا؟ کیا سوتیلے بیٹے کو ماں کی جائداد میں حصہ ملے گا؟
جواب: لڑکی اصحاب فرائض میں سے ہے، یعنی میراث میں اس کا حصہ متعین کیا گیا ہے، لیکن اپنے بھائی کی موجودگی میں وہ بھی عصبہ ہوجائے گی اور اصحاب فرائض میں میراث تقسیم ہونے کے بعد بقیہ حصہ ان کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ لڑکی کو لڑکے مقابلے میں نصف ملے گا۔
صورت مسئولہ میں اصحاب فرائض نہیں ہیں، اس لیے کل میراث کے دس حصے کیے جائیں گے۔ ایک ایک حصہ چاروں بہنوں کو دیا جائے گا اور دو دو حصے تینوں بھائیوں کو ملیں گے۔
ماں کی جائداد میں اس کے حقیقی بیٹے کی موجودگی میں سوتیلے بیٹے کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔