کیا فرق پڑتا ہے؟

332

مشاہد اللہ خان کے بعد اب عثمان خان کاکڑ بھی چل بسے۔ بھیڑ چال کے اس دور میں یہ وہ لوگ تھے جو ریوڑ کے ساتھ ہانکے جانے سے انکاری تھے، ان کی صدائیں بے شک ایوان بالا کے بالا خانوں سے ٹکرا کر واپس آجاتی تھیں مگر جمہوریت کی ساکت گھنٹیوں میں خفیف ہی سہی ایک حرکت ضرور پیدا کرتی تھی۔
سابق سینیٹر کی وفات پر ایک گروہ متحرک ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ موت کے اسباب پر تحقیقات کی جائیں، یہ مطالبہ نیا نہیں، یہ گروہ ہر افغان کی پراسرار موت پر تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے، بشرطیکہ موت سرحد پار افغان علاقے میں نہ ہوئی ہو! رد عمل دوسری جانب سے بھی حیران کن ہے، تحقیقات کے مطالبے پر وہ حضرات بھی مشتعل ہیں جو کچھ دنوں پہلے ہی سپہ سالار کے اس بیان پر بغلیں بجا رہے تھے کہ عسکری اداروں کو آج کے زمانے میں اگر کسی شخص کا ’صفایا‘ کرنا ہو تو اس کو گولی نہیں مارتے بلکہ ایسے سائنسی طریقے سے اس کا صفایا کرتے ہیں کہ قتل کا شبہ بھی نہیں ہوتا۔
بہرحال بجٹ اجلاس کے شور وغل میں یہ قضیہ دب گیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملک کو اس بجٹ کے ذریعے ترقی کی راہ پر گامزن کردیا ہے اور ایک فلاحی ریاست کے خواب کو حقیقت کا رنگ دیا ہے۔ حکومت کے حامی ان اشاریوں کو پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکومت تمام تر مشکلات، رکاوٹوں اور مافیاز کی سازشوں کے باجود کامیابی کے مراحل طے کر رہی ہے اور اگلے انتخابات میں کامیاب ہوکر جو چند ایک مجبوریاں ہیں ان سے آزاد ہو کر ملک کو ترقی کی معراج پر پہنچا دے گی۔ یقینا یہ ایک خوش آئند بات ہی نہیں ایک سہانا خواب بھی ہے مگر اس خواب میں کچھ سرکش آوازیں خلل ڈالتی ہیں جو ملک میں آزادی اظہار، جمہوری اقدار اور اختلاف رائے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔
لیکن کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ آزادی اور جمہوریت کا ڈھنڈورا تو مغرب زدہ عیاش طبقہ روز اول سے پیٹتا رہا ہے، پاکستان میں اگر شتر بے مہار میڈیا کو لگام دی جارہی ہے اور ’کرپٹ‘ عناصر کو جمہوریت کے نام پر لوٹ مار سے روکا جارہا ہے تو اس کے پیچھے ملک کی خیر خواہی کا ہی جذبہ تو کارفرما ہے۔ ان عناصر کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو یہ ملک کی مخلص قیادت پر کیچڑ اچھالتے ہیں، ان کی توجہ بانٹتے ہیں اور ملک میں جو اب ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے اپنے اختلافی آراء سے فساد مچاتے ہیں۔ پاکستان اب اس کھیل کا متحمل کہاں ہوسکتا ہے جبکہ خطے کی صورتحال سنگین ہے، پڑوسی ملک میں انتہا پسند حکومت ہمارے خلاف سازشوں کا جال بچھا رہی ہے اور افغانستان میں خانہ جنگی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
ہمیں اچھا لگے یا نہیں، ہمارے ملک میں سیاسی منافرت اور جذباتی عقیدت کے نتیجے میں یہی سوچ عام ہوگئی ہے جو گزشتہ سطور میں بیان کی گئی، ہم یک جہتی کی جانب گامزن ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چین سے قربت نے ہمیں ان کے نظام سے متاثر کردیا ہے جہاں اختلاف کی گنجائش ہے نہ اعتراض کی، جہاں جناب سرکار نے فرمان جاری کردیا تو قومی مفاد کے خاطر قصیدہ خوانی لازم ہے، تردد غداری کے مترادف ہے اور سوال اٹھانا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔
لیکن سوال پھر بھی وہی ہے، کہ جب ہم ترقی کررہے ہیں، فلاحی منصوبوں کا اعلان ہورہا ہے تو یک جہتی، نظام اور آزادی پر قدغنوں سے فرق کیا پڑتا ہے؟ عام آدمی کو رات گزارنے کے لیے چھت، پیٹ بھرنے کے لیے روٹی، سفر کے لیے سڑک اور دلی اطمینان کے لیے میڈیا پر سرکاری قصیدہ خواں میسر ہو جو اس کو ’ قومی عظمت کے وہم‘ میں پیہم مبتلا رکھیں تو اس کے لیے آزادی، اختلاف، اور سیاسی حقوق کیا معنی رکھتے ہیں؟ چین کے عوام خوشحال ہیں، یہی حال خلیجی ممالک کا ہے، وہاں کے شہری جمہوریت نہ ہونے کے باجود ہم سے زیادہ خوش ہیں۔
یوں تو اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ نشے میں مخمور قوم کو کالم کی سطور نہیں تلخ تجربات حقائق سے آشنا کرتے ہیں مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ فرق پڑتا ہے اور بہت زیادہ فرق پڑتا ہے، کیونکہ اگر انسانی امتیاز کے پہلو کو نظر انداز کربھی دیا جائے جس کے جانوروں سے ممتاز ہونے کی وجہ دو وقت کی روٹی اور پر سکون زندگی نہیں بلکہ اپنے حقوق کو جاننا اور اس کو حاصل کرنا ہے تو یک جہتی نظام جو ایک خاندان، ایک شخصیت، ایک گروہ کے گرد گھومتا ہو وہ اگر ترقی کر بھی لے تو اس کو دوام حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ اس کا انحصار ایک ہی محور پر ہوتا ہے جو بہرحال جلد یا بدیر اپنے لمحہ اجل کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے ساتھ اس قوم کو بھی زمین بوس کردیتا ہے۔ جرمنی ہٹلر کے دور میں دنیا کی عظیم طاقت تھی جس نے ایک وقت پر فرانس کو سرنگوں کردیا تھا اور برطانیہ پر حاوی ہوگیا تھا، مگر وہ چند دن کی عظمت تھی، کیونکہ ہٹلر کے دور میں جرمنی مضبوط تھا جرمن مظلوم تھا، یہی حال اس وقت کی دیگر طاقتوں کا ہوا۔ اس کے برعکس برطانیہ تمام آدھی دنیا پر حکومت کرکے دوبارہ اپنے خول میں چلا گیا مگر اس کا نظام تباہ نہیں ہوا کیونکہ برطانیہ میں برطانوی شہری کی عزت، اس کی آزادی اور اس کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ مجبور و مقہور عوام کبھی دیرپا ترقی کی بنیاد نہیں بن سکتے، یہ دنیا کا قاعدہ ہے اور پاکستان اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔