‘پارلیمنٹ نہیں قرآن و سنت بالادست ہیں’

390

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نہیں پارلیمنٹ بالادست ہے۔  انہوں نے وضاحت کی ہے کہ الیکشن کمیشن کا کام قوانین پر عمل کرنا ہے اور عدالت عظمیٰ کا کام آئین کی تشریح کرنا ہے۔  انہوں نے الیکشن کمیشن کو براہ راست دھمکانے والے انداز میں کہا کہ سیاست کرنی ہے تو پارٹی بنا لیں۔

 وزیر اطلاعات نے بیک وقت کئی محاذ کھولے ہیں الیکشن کمیشن کو دھمکی کے علاوہ انہوں نے آئندہ پانچ سال بھی پی ٹی آئی کی حکومت رہنے کا دعویٰ کرکے سارے انتخابی نظام کو ایک جانب رکھ دیا جس پر بجا طور پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا دھاندلی کی تیاری مکمل ہو گئی ہے۔  فواد چودھری صاحب بھی اس قبیل کے وزرا میں سے ہیں جو پھلجھڑی چھوڑنے کے چکر میں بسا اوقات ایسی بات کر جاتے ہیں جو ان کی اپنی پارٹی کے خلاف جاتی ہے جمہوری نظام میں جس کی بالادستی کے سب گن گاتے ہیں پارلیمنٹ یقیناً بالادست ادارہ ہوتی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پارلیمنٹ بھی بالادست نہیں۔ آئینی طور پر قرآن و سنت بالادست ہیں۔

فواد چودھری قرآن و سنت کو بالادست تسلیم کرنے کے بجائے لوٹوں والی پارلیمنٹ کو بالادست کہہ رہے ہیں۔ لوٹے بھی ایسے کہ لڑھک لڑھک کر کئی کئی پارٹیاں بدل چکے اسی جمہوری نظام نے ایک الیکشن کمیشن بنایا ہے جس کو بااختیار بھی کہا جاتا ہے اور الیکشن کمیشن کو اس قدر بااختیار ہونا چاہیے جتنا کہ بھارت میں ہوتا ہے۔ ہمارے وزرا باہر کی مثالیں بڑے شوق سے دیتے ہیں اس لیے ان کو مشورہ دیا ہے کہ ٹی این سیشن کی طرح بااختیار الیکشن کمشنر بنا دیں وہ چیف جسٹس کی طرح بااختیار ہونا چاہیے لیکن پاکستان کے حکمراں طبقے میں اتنا ظرف ہی نہیں کہ کسی ادارے کو بااختیار بنا دے یا آئین کے تحت کام کرنے دے۔ البتہ فوج خود ہی بااختیار ہے اس لیے یہ اس کے اختیار کو چیلنج نہیں کرتے۔

فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کی جانب سے حکومت کی انتخابی نظام میں ترامیم پر تنقید پر یہ باتیں کہی ہیں۔ الیکشن کمشنر نے مجوزہ ترامیم میں سے بعض کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا۔ جمہوریت کے دعویداروں کے لیے ضروری تھا کہ اس کا جواب آئینی طور پر دیا جاتا۔ فواد چودھری کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن وہ ریکارڈ درست کر لیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پارلیمنٹ یا الیکشن کمیشن بالادست نہیں قرآن و سنت بالادست ہے جسے یہ لوگ بلکہ تمام ادارے بالادست نہیں بناتے کیونکہ اس کے نتیجے میں یہ سب کسی نہ کسی ضابطے کے پابند ہو جائیں گے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ آئین میں ایسا ہی لکھا ہے لیکن آئین کی تشریح بھی قرآن و سنت کی روشنی میں علما کے مشورے سے ہونی چاہیے۔

یہ ساری باتیں کرنے کے بعد وزیر اطلاعات نے ساری خرابیوں کی ذمے داری دو خاندانوں پر ڈال دی ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ دس سال میں 20 ہزار ارب روپے قرض لے کر انہوں نے کیا کیا۔  دو خاندان بیرون ملک جائدادیں بنا رہے ہیں۔  لیکن دس سال کے مقابلے میں تین سال تو پی ٹی آئی کو بھی ہو گئے ہیں اور جتنی طاقتور پی ٹی آئی حکومت ہے اتنی تو دس سال میں کوئی حکومت نہیں رہی جس کی حمایت میں فوج کے سربراہ اور ترجمان براہ راست بیان دیتے رہے ہیں۔

اس حکومت کو بھی دس برس کے مقابلے میں 30 فیصد مدت ہو چکی ہے۔ وہ ذرا اپنی کارکردگی ان دس برسوں کے مقابلے میں 20 فیصد ہی دکھا دیں۔ پی ٹی آئی نے تو تین برس میں جس رفتار سے قرض لیے ہیں وہ پانچ برس ہی میں گزشتہ دس برس کا ریکارڈ توڑ دے گی اور نتیجہ گزشتہ دس برس کی طرح صفر ہے۔ اب قرض کی خاطر موٹر ویز اور ائر پورٹس گروی رکھنے کی منظوری دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے ملک کو ہی گروی رکھنے کی جانب سفر جاری ہے۔ اس پر وزیر خارجہ مذاق کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ آئی ایم کے لیے پوری قوم کو گروی نہیں رکھ سکتے۔ وزیر خارجہ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی بھی حقائق سے واقف نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی بہت سی چیزیں غیر ملکیوں یا غیر ملکی اداروں کے پاس گروی ہیں۔ پی آئی اے کے روٹس گروی ہیں۔ صرف موٹروے نہیں کئی اداروں کی آمدنی گروی ہے۔ ظاہری طور پر ترقی ہو رہی ہے لیکن سی پیک میں کیا گروی رکھا گیا ہے اس کا کب پتا چلے گا۔

وزیر اطلاعات نے دو خاندانوں کے بیرون ملک جائدادیں بنانے کا شکوہ کیا ہے لیکن ان کی حکومت میں تو بیرون ملک اور اندرون ملک جائدادیں بنانے والے بھی ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی دور میں 28 بڑے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔ دو خاندانوں کا رونا چھوڑیں اور اپنی حکومت کے دور میں ہونے والے اقدامات کی بات کریں۔ میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی خصوصاً زرداری دور میں قرضوں کو معاف کرانے پر پی ٹی آئی والے تنقید کرتے ہیں وہ بھی اتنا ہی غلط تھا جتنا غلط موجودہ دور میں 28 قرضے معاف کرانا ہے۔ یہ رقم پاکستانی قوم کی امانت ہے اس کو لٹانا اور لوٹنا دو سابق حکمران خاندانوں اور موجودہ حکمرانوں دونوں ہی کے لیے یکساں حرام ہے۔

 فواد چودھری اور ان کے وزیراعظم ایک مرتبہ پھر نیت اور ادارے کی تجدید کر لیں اگر وہ یہ کام نہ کر سکیں تو ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے سے توبہ کریں اور علی الاعلان اللہ اور قوم سے معافی مانگیں۔ کام صرف یہ ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کو بالادست تسلیم کریں۔ سود کا خاتمہ کریں عدالتوں اور اداروں کو قرآن و سنت کے مطابق کام کرنے کا حکم دیں اور خود بھی مسلمان حکمرانوں کی تاریخ اور ذاتی زندگی کا مطالعہ کریں۔ ورنہ قدرت کے فیصلے کا انتطار کریں، بہانہ کوئی بھی بن سکتا ہے۔