افغان صفوں میں انتشار

395

افغانستان میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ نے بتادیا ہے کہ اب طالبان آیا ہی چاہتے ہیں اور امریکا اور اس کے چمچے بھاگنے والے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بار بار عالمی برادری اور دوسرے ممالک کو آوازیں کیوں لگائی جارہی ہیں۔ افغانستان کی پہلی جنگ میں روس کے خلاف صرف پاکستان، افغان مجاہدین کے ساتھ کھڑا تھا، جب روس کو روکنے کے ناممکن کو کابل یونیورسٹی کے طلبہ اور دیگر نوجوانوں نے علمائے کرام کی رہنمائی میں ممکن کرنا شروع کیا تو ساری دنیا ان کی مدد کو کود پڑی اور پوری جنگ کو ہائی جیک کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ سعودی عرب، امریکا اور دنیا بھر کی مدد سے روس کا راستہ روکا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان روس کے ساتھ بھی وہی کرتے جو برطانیہ کے ساتھ تنہا کیا تھا اور امریکا اور ساری دنیا کی قوتوں کے ساتھ تنہا کیا۔ ایک روز قبل پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید نے افغانستان کے حالات میں تبدیلی اور نئی صورت حال کے لیے تیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور اس روز مزید اکھاڑ پچھاڑ ہوگئی۔ کشیدگی اس قدر بڑھ گئی کہ افغان صدر اشرف غنی نے آرمی چیف، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو تبدیل کردیا۔ یہ کشیدگی سے زیادہ خوف کی علامت ہے۔ ان سب پر طالبان کی ہیبت طاری ہوگئی ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اب طالبان آرہے ہیں بلکہ آج کل کے معروف جملے کو دیکھا جائے تو یوں کہنا چاہیے کہ طالبان آ نہیں رہے، طالبان آگئے ہیں۔ 24 سو اہلکاروں کو طالبان میں شمولیت ایک واضح پیغام تھا جس کے بعد افغان صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور صورت حال یہ ہے کہ امریکی اپنے بیس خالی کرتے جارہے ہیں اور طالبان علاقوں پر قبضے کرتے چلے جارہے ہیں۔ انہوں نے تقریباً 30 اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے۔ افغان فوجیوں کی ہلاکت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، غرض طالبان نے عملاً افغان فورسز کی کمر توڑ دی ہے۔ عالمی برادری سے اب اپیل کرنے کی ضرورت افغان حکومت کو تو ہو سکتی ہے پاکستان کو نہیں۔دوسری طرف طالبان کے خلاف پروپیگنڈا بھی ہورہا ہے کہ وہ خواتین کو حقوق نہیں دیتے، ان کے پاس جمہوریت نہیں ہے، وہ امن نہیں چاہتے۔ اس کا دو ٹوک جواب آگیا ہے کہ ہم کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور سنجیدہ ہیں اور ملک میں حقیقی اسلامی نظام کے خواہش مند ہیں۔ ایک بیان میں وضاحت بھی کی گئی ہے کہ طالبان افغانستان میں ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں، مذہبی اصولوں اور ثقافتی روایات کے مطابق خواتین کو حقوق کی ضمانت دی گئی ہو، افغان طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے افغان حکومت کو واضح پیغام دیا ہے کہ افغان عوام کے مسائل کا حل اسلامی نظام حکومت ہی میں ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اسے پاکستانی عوام کو بھی سمجھنا چاہیے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بھی۔ یہ اسلام ہی کی برکت تھی کہ مسلمان دنیا بھر پر حکمرانی کرتے رہے۔ طالبان نے تو گویا ایک اعتبار سے عام معافی کا بھی اعلان کردیا ہے کہ کسی کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں۔جہاں تک پاکستان کی جانب سے بار بار افغان امن میں شراکت داروں اور عالمی برادری کو بلانے کی بات ہے یہ جرأت میں کمی اور حکمرانی میں کمزوری کا اظہار ہے۔ ایسے موقع پر جب میدان خالی ہورہا ہے اور افغانستان میں پاکستان کے دوست حکمران بننے والے ہیں اس وقت تو آگے بڑھ کر معاملات ہاتھ میں لینے کی ضرورت تھی لیکن پاکستانی حکومت اس وقت عالمی برادری سے اپیلیں کررہی ہے۔ وزیر خارجہ نے اچانک 30 لاکھ افغانوں کی واپسی کا مسئلہ چھیڑا ہے، یہ مسئلہ بھی اقوام متحدہ اور نئی افغان حکومت کا ہے دونوں مل کر اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرسکتے ہیں۔ یہ وقت تو امریکا طالبان معاہدے کے مطابق ستمبر تک غیر ملکی افواج کے انخلا کو یقینی بنانے کا ہے اور ایک مرتبہ تمام غیر ملکی افواج اور قوتیں افغانستان سے نکل جائیں تو پھر افغانستان میںامن مہینوں نہیں چند ہفتوں کی بات ہوگی۔ افغانستان میں بدامنی لڑائیاں اور بارود کی بارش کا سبب غیر ملکی مداخلت ہی تو ہے۔ روس نے یہ کیا اور افغانستان اور پاکستان کا امن تباہ کیا پھر امریکا نے یہ کوشش کی اور خطے کا امن تباہ کیا، اب وہ سبق سیکھ کر جارہا ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں کو ایسے موقع پر کمزوری نہیں دکھانی چاہیے بلکہ مضبوط قومی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ چوں کہ حکومت کے پیچھے حقیقی عوامی تائید نہیں ہے اس لیے وہ اس طرف دیکھتے ہیں جہاں سے انہیں قوت اور تائید ملتی ہے جن کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں، لیکن عوامی تائید والے حکمران ان مجبوریوں سے آزاد ہوتے ہیں ان کے لہجے بھی مستحکم ہوتے ہیں۔ وزیر خارجہ افغانستان میں 20 برس جنگ اور لاکھوں افراد کی ہلاکت کے بعد بھی افغانستان کے پرامن تصفیے کی بات کررہے ہیں۔ پرامن تصفیہ کا راستہ بھی جہاد سے گزرتا ہے اور طالبان اس راستے سے گزر چکے، ان کی یہ بات درست ہے کہ کابل ائرپورٹ کی سیکورٹی ترکی کو دینے کی تجویز پر طالبان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اور طالبان اور ترکی نے اس بارے میں بھی مذاکرات شروع کردیے ہیں۔ افغان حکومت کی صفوں میں پیدا شدہ انتشار بتارہا ہے کہ افغانستان میں آنے والے دنوں میں کیا ہونے جارہا ہے۔ ویسے شیخ رشید کو اندازہ ہوگیا تھا کہ جب مصیبت آتی ہے تو وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور جنرل کی تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان میں صدارتی محل کی طاقت اب اتنی نہیں رہی ورنہ یہاں بھی بہت کچھ ہوچکا ہوتا۔