معاشی اہداف حاصل، بجٹ فلاحی ہوگا؟

268

وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تمام معاشی اہداف حاصل کرلیے ہیں، خدمات، صنعت، زراعت، مینوفیکچرنگ، تعمیرات غرض ہر شعبے میں شرح نمو میں بڑھوتری دکھائی گئی ہے۔ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں اضافہ بتایا ہے۔ اس بنیاد پر تخمینے لگائے گئے ہیں کہ فی کس آمدنی بھی بڑھ جائے گی جو 1543 ڈالر تک ہو جائے گی۔ اس میں رواں مالی سال کے تجارتی خسارے کا ذکر نہیں ہے جو بڑھ کر 30.56 ہوگیا ہے۔ برآمدات تو ساڑھے 22 ارب ڈالر کی ہیں لیکن درآمدات 50 ارب ڈالر سے آگے نکل گئی ہیں، لیکن پھر بھی حکومتی دعوئوں پر یقین کرلیتے ہیں اور توقع کی جانی چاہیے کہ آج پیش ہونے والا بجٹ تاریخی ہوگا۔ حکومت نے تمام اہداف حاصل کرلیے ہیں تو عوام کی جان ٹیکسوں سے چھوٹ جائے گی۔ ان کو ریایتیں ملیں گی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ ہوگا، ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوگی۔ برآمدی صنعت کو مراعات ملیں گی، تجارت کے فروغ کے لیے پالیسی بنے گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا آئی ایم ایف کی ہدایت پر مشتمل بجٹ میں ایسا ممکن ہے جس کی جانب سے دو سو ارب کے ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ صرف ایک دن قبل خبر آئی ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے 200 ارب کے ٹیکس کا متبادل بھی دیا ہے۔ وہ متبادل کیا ہے جس میں 200 ارب بھی وصول ہوجائیں اور ٹیکس بھی نہ لگیں اس سے قوم کو یقینا آگاہ نہیں کیا جائے گا۔ خبر تو اس طرح کی ہے جیسے سرکاری پریس ریلیز جس میں بتایا گیا ہے کہ وزیر خزانہ نے متعدد شعبوں میں دی گئی مکمل چھوٹ ختم کرنے سے انکار کردیا ہے ،بڑی ہمت کی بات ہے اور بجلی، گیس کی قیمتوں پر بھی اتفاق نہ ہوسکا۔ اتفاق کیا ہوتا ہے آئی ایم ایف نے بجلی و گیس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے حکومت خائف ہے لہٰذا وقفے وقفے سے بڑھائی جائے گی۔ ایسا تو ممکن نہیں کہ حکومت تمام اہداف حاصل کرکے عوام کو بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا تحفہ دے دے۔ ہر حکومت کا کوئی ہدف ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومت ایسی حکومت ہے جس کا ہدف صرف سابق حکمرانوں کے خلاف تقریریں کرنا ہے اور اپنی نالائقی کا الزام سابق حکومتوں پر ڈالنا ہے۔ سارا زور اس کام پر ہوگا یا عالمی وبا کے حوالے سے صوبہ سندھ اور وفاق کو لڑنا ہوگا تو عوام کی فلاح پر کام کون کرے گا۔ وفاقی حکومت کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ بجٹ بنارہی ہے لیکن پاکستان میں ایسا کب ہوا کہ حکومت نے خود بجٹ بنایا ہو ساری ہدایات تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے ملتی ہیں۔ اب تو ان کے نمائندے حکومت کا حصہ بنادیے گئے ہیں اب ہدایات دینے کی ضرورت نہیں رہی۔ حکومت کی رپورٹ کچھ بھی کہے اعداد وشمار کا کھیل کچھ کہے یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اگر عوام مطمئن ہیں ان کو بنیادی ضرورت کی اشیا مناسب قیمتوں پر دستیاب ہیں اور دیگر ضروریات، صحت، تعلیم، بجلی، پانی، پٹرول وغیرہ بھی دستیاب ہیں تو حکومتی دعوے درست ورنہ اب تک کسی حکومت نے اعتراف نہیں کیا کہ ہماری نالائقی کی وجہ سے عوام مہنگائی کا شکار ہیں۔ وہ یا تو سابقہ حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں یا عالمی حالات کا رونا روتے ہیں، یا پھر اپنی پالیسیوں کے بارے میں خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ہم نے بہت اچھی معاشی ٹیم اتاری اور بہت عمدہ کام کیا ہے جس کے نتیجے میں معیشت ترقی کررہی ہے۔ اب بھی یہی تاثر دیا جارہا ہے لیکن جن شعبوں کی ترقی کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میں سے کون سا شعبہ ہے جس میں لوگ مطمئن ہوں۔ خدمات کے شعبے میں کون سی ایسی خدمات دی گئی ہیں جن سے عوام مطمئن ہوں، کیا صنعتی شعبہ مطمئن ہے۔ ہر روز تو ان کے مطالبات سامنے آتے ہیں کہ ٹیکسوں کے بوجھ سے آزاد کیا جائے۔ تعمیرات کے شعبے کی ترقی کا دعویٰ تو کیا گیا ہے اعداد وشمار یقینا درست ہوں گے لیکن اس کے اثرات عام آدمی تک پہچنے کے آثار نہیں ہیں۔ اسی طرح گندم، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں اضافہ بتایا گیا ہے لیکن گندم اور آٹا غائب اور مہنگا ہے، چینی مہنگی اور غائب ہے، وزیراعظم چینی مافیا کی دھمکیوں کا شکوہ کررہے ہیں، ایسے میں اعداد و شمار پر یقین کیا جائے یا زمینی حقائق پرجو زیادہ سنگین صورتحال پیش کر رہے ہیں۔