عوام کے ساتھ وزیراعظم کا سنگین مذاق

496

اتوار کے روز سے پاکستان کا میڈیا وزیراعظم کی جانب سے ایک کمال کی خبر سے بھرا ہوا ہے کہ وزیراعظم نے پروٹوکول کے بغیر اسلام آباد کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور خود گاڑی چلائی، ریڑھی بانوں سے بھی ملے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر ایک ٹھیلے والے کا جملہ بھی میڈیا پر خوب گردش کررہا ہے کہ آپ پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں غریب کا احساس ہے۔ خبر کے مطابق شہریوں نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن پاکستان کے کروڑوں عوام کو وزیراعظم کے اس ڈرامے پر کوئی خوشگوار حیرت نہیں ہوئی۔ بلکہ اب وہ زمانہ ہی گزر گیا جب صدر مملکت پروٹوکول کے بغیر سائیکل چلا کر اپنے دفتر جاتے سارا سرکاری میڈیا اور پروٹوکول پیچھے چلتا رہے۔ آگے سڑکیں خالی کردی جائیں اور سب واہ واہ سبحان اللہ کہیں۔ ملک میں ہر طرح سے حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ اگر عالمی وبا کورونا کو دیکھا جائے تو جو لوگ محفوظ ہیں وہ صرف اللہ کی مہربانی سے محفوظ ہیں ورنہ حکومت کے اقدامات ایسے ہرگز نہ تھے کہ لوگ محفوظ رہ سکیں۔ سندھ اور وفاق کا جھگڑا جاری ہے، ایک دوسرے کے خلاف کورونا مقابلہ ہورہا ہے اور وزیراعظم احساس پروگرام کے ریڑھی بانوں سے ملنے کا ڈراما کررہے ہیں۔ ایسے ڈرامے کبھی افریقی ملکوں کے حکمران کرتے تھے کبھی عرب شیوخ کرتے تھے لیکن پاکستان میں اچانک وزیراعظم عمران خان نے وہی کام کیا جو جنرل ضیا الحق نے سائیکل چلا کر کیا تھا۔ لیکن وہ ایک جرنیل تھے ان کے پاس سیاسی شعور بالکل نہیں ہوتا انہیں کسی نے ایسا ڈراما کرنے کا کہا اور انہوں نے کردیا۔ عمران خان تو 22 سال سے سیاست میں ہیں انہیں اتنا تو شعور ہوگا کہ ایک وزیراعظم جس کو اپنی پارٹی کے ارکان کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ اس کے ساتھ ہیں یا کسی مضبوط ترین گروپ کے ساتھ وہ اچانک عوام میں نکل کھڑا ہوگا دراصل جس مہنگائی کو قابو میں کرنے کی کوئی کوشش حکومت نہیں کررہی ہے اور وہ عوام کو بری طرح جکڑے ہوئے ہے اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی نہ کوئی حربہ اختیار کرنا تھا۔ چناں چہ یہ اچانک دورہ اس طرح ہوا کہ وزیراعظم کو اچانک پی ٹی وی کی ٹیم مل گئی اچانک وہ اپنی گاڑی لے کر سڑک پر آگئے۔ ان کے آگے سڑک سنسان بازار میں گئے تو گویا پورے بازار کو کورونا ہوگیا تھا کوئی نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ اتنا زیادہ مصنوعی ڈراما کیا گیا کہ کسی سنجیدہ حکمران کے لیے اس سے زیادہ شرم کا مقام نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ مستحکم ہے، اس کے مستقبل کے بارے میں اچھی امید کی جاسکتی ہے، حکومت کے ادارے ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں، عدلیہ اور ریاست کی لڑائی بھی اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ عملی طور پر حکومت ناکام ہوچکی ہے، اس قسم کے ڈراموں کے بجائے اگر وزیراعظم سنجیدگی سے روزانہ قیمتوں کا جائزہ لیتے، سرکاری خزانے سے سبسڈی دیتے اور جگہ جگہ چینی اور آٹے کے لیے لگنے والی لائنوں سے عوام کو بچاتے تو بہتر تھا لیکن مسئلہ صرف وزیراعظم کا نہیں ہے یہاں پوری حکومت کا رویہ ایسا ہی ہے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر جگت بازی میں لگا ہوا ہے۔ سابق وفاقی وزیر اور آج کل وزیراعلیٰ کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان رمضان بازار میں ناقص اشیا خوردنوش دیکھ کر دورے پر ساتھ موجود اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف پر برس پڑیں اور نہایت نامناسب زبان استعمال کی جس پر اسسٹنٹ کمشنر کو کہنا پڑا کہ میں آسمان سے نہیں اُتری غلطی ہوسکتی ہے۔ یہ بات کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ کیا فردوس عاشق اعوان یہ بتا سکیں گی کہ عام بازار میں اشیائے ضرورت مل نہیں رہی ہیں تو رمضان بازار کیوں لگائے گئے۔ ظاہر ہے یہ بھی اپنے خاص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی لگائے گئے ہوں گے۔ حکومت کو جو موقع ملا ہے وہ اسے عوام کی خدمت اور ملکی ترقی پر لگانے کے بجائے بس وقت گزاری کے اقدامات کررہی ہے۔ ایک سنجیدہ حکومت کو ایسے اقدامات اور اس کے ذمے داروں کو ایسے رویے زیب نہیں دیتے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور وبا کے اس دور میں وزیراعظم کا ڈراما عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق سے کم نہیں۔