سترہواں سبق: یوم الفرقان (17رمضان 2 ہجری)

496

مطالعہ قرآن: ’’یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیںملے مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے‘‘۔ (الانفال: 7) سورۃ الانفال تقریباً پوری کی پوری غزوۂ بدر ہی سے متعلق ہے۔ بعض ایسے مسائل جو غزوہ بدر کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے‘ مثلاً مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ‘ ان کا حل بھی اس سورۃ میں تجویز کیا گیا اور اس غزوے کے دوران جو حالات پیش آئے اور مسلمانوں سے اگر کہیں کسی کوتاہی کا صدور ہوا‘ ان سب پر اللہ کی طرف سے ایک نہایت جامع تبصرہ اور آئندہ کے لیے اصولی ہدایات بھی اس سورہ مبارکہ میں شامل ہیں۔ گویا پوری سورۃ غزوہ بدر کے گرد گھومتی ہے۔ غزوہ بدر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر کو یوم الفرقان قرار دیا‘ یعنی حق و باطل کے مابین تمیز والا دن۔ اس دن معلوم ہو گیا کہ اللہ کی نصرت و حمایت کس کے ساتھ ہے‘ ان کفار مکہ کے ساتھ کہ جو ایک ہزار کی تعداد میں ہر طرح کے ہتھیار سجا کر میدانِ بدر میں آئے تھے یا اِن تین سو تیرہ بے سروسامان مسلمانوں کے ساتھ جن کا رسالہ کل دو گھوڑوں پر مشتمل تھا اور جن میں سے سب کے پاس ہتھیار بھی مکمل نہ تھے۔ کسی کے پاس تلوار تھی تو نیزہ نہ تھا اور اگر نیزہ کسی کے پاس تھا تو تلوار نہ تھی‘ اور ایسے بھی تھے جو نیزہ اور تلوار دونوں سے تہی تھے۔ پھر یہ کہ ان بے سروسامان مسلمانوں کی عظیم اکثریت ان انصار پر مشتمل تھی کہ جن کو قریش جنگجو قوم ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے بارے میں قریش مَکّہ کا یہ خیال تھا کہ یہ کاشت کار لوگ ہیں‘ لڑنے بھڑنے سے انہیں کیا سروکار! وہ تین سو تیرہ ایک ہزار کے کیل کانٹے سے لیس ہر طرح سے مسلح لشکر سے ٹکرا گئے اور اسے ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ یوں سمجھیے کہ مکے نے اپنی اصل طاقت کو وہاں اگل دیا تھا‘ اس کی کل جمعیت میدانِ بدر میں موجود تھی۔ عتبہ بن ربیعہ اور ابوجہل جیسے بڑے بڑے سردار کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی مانند میدانِ بدر میں پڑے تھے۔ وہ دن واقعی یوم الفرقان تھا‘ اس نے حق و باطل کے مابین تمیز کر دی‘ دودھ کا دودھ پانی کا پانی جدا کر دیا۔ اس شاندار فتح سے مسلمانوں کا مورال یقینا بہت بلند ہوا۔ پورے علاقے پر مسلمانوں کا دبدبہ قائم ہو گیا۔ اس طرح ہجرت کے دو ہی سال بعد صورتِ حال ایک دم اس طرح تبدیل ہو گئی کہ وہ کسمپرسی اور مظلومیت کا دَور گویا کہ ختم ہوا اور مسلمانوں کی دھاک پورے علاقے پر بیٹھ گئی۔ صورت ِ حال کی یہ ساری تبدیلی دراصل نتیجہ تھا غزوہ بدر کا جسے اللہ تعالیٰ نے بجا طور پر یوم الفرقان قرار دیا تھا!
مطالعہ حدیث: سیدنا معاذ بن رفاعہ ابن رافعؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ جبرائیل امین نے رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ حضرات اہل بدر کو کیسا شمار کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا۔ مسلمانوں میں سب سے افضل یا اس طرح کی اور بات ارشاد فرمائی۔ جبرائیل امین نے عرض کیا۔ فرشتوں میں بھی وہ فرشتے افضل ہیں جو بدر میں حاضر ہوئے۔ (بخاری) غزوہ بدر میں شریک ہونے والے ایک صحابی سے متعلق ارشاد فرمایا۔ یہ بدر میں حاضر ہوئے ہیں تمہیںکیا خبر یقینا اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر خاص توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم جو چاہو کرو تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ میںنے تم کو بخش دیا۔ (بخاری)
سیرت صحابہ: میدانِ بدر سے مکہ پہنچنے والا سب سے پہلا شخص حیسمان بن ایاس خزاعی تھا۔ اہلِ مکہ اسے دیکھتے ہی اس کے گرد جمع ہوگئے اور اس سے جنگ کا حال پوچھنے لگے۔ شدت غم سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ اس نے کہا: ’’بدر کے میدان میں ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی، ہمارے بہت سے بہادر جنگجو دشمن کی تلواروں کا لقمہ بن گئے۔ میدان جنگ میں ہر جانب موت رقصاں تھی، مکہ کے سردار اور فوج کے قائدین زندگی کی بازی ہارگئے‘‘۔ پھر وہ مقتولین کے نام گنوانے لگا۔ حاضرین سکتے میں آگئے اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مکہ میں جنگ سے پیچھے رہ جانے والا سردار صفوان بن امیہ غصے میں دھاڑا اور کہا: ’’حیسمان کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سے ذرا میرے بارے میں پوچھو کہ میں کہاں ہوں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’صفوان بن امیہ وہ سامنے بیٹھا ہے اور اس کے بھائی اور باپ کو مَیں نے قتل ہوتے دیکھا ہے‘‘۔ حیسمان خزاعی کی باتیں سن کر کچھ لوگ متذبذب تھے، مگر اکثریت نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ اسی لمحے بدر سے آنے والا دوسرا فرد مکہ میں داخل ہوا۔ یہ خاندانِ بنوہاشم کا چشم وچراغ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب تھا۔ بنوہاشم میں ابولہب کے بعد یہی شخص اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس نے بھی حیسمان کی حرف بہ حرف تائید کی تو اہلِ مکہ کے لیے شکست کی خبر پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ابولہب اپنی اسلام دشمنی کے باوجود قریش کے ساتھ جنگ کے لیے نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا۔ عاص اس کا مقروض تھا۔ اس نے اس سے کہا کہ وہ اس کی جانب سے جنگ پر جائے تو یہ قرض معاف کردیا جائے گا۔ وہ مکہ میں جنگ کے نتائج کا بے قراری سے انتظار کررہا تھا۔ چاہِ زمزم کے قریب بیٹھا قریش کی فتح کے خواب دیکھ رہا تھا کہ کسی نے اسے بتایا کہ تمہارا بھتیجا ابوسفیان بن حارث میدانِ جنگ سے آگیا ہے۔ اس نے بلند آواز سے ابوسفیان کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا: ’’بھتیجے بتائو جنگ کی کیا خبر ہے؟‘‘ ابوسفیان بن حارث نے کہا: ’’جنگ کی کیا خبر پوچھتے ہو؟ بات کہنے کی ہے نہ سننے کی۔ خدا کی قسم دشمن نے ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹا اور جنگ کے بعد ہمارے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر قیدی بنالیا۔ ہم نے اپنے دشمنوں کے علاوہ ایک عجیب مخلوق دیکھی۔ سرخ وسفید رنگ کے نوجوان ابلق گھوڑوں پر سوار زمین وآسمان کے درمیان معلق نظر آرہے تھے‘‘۔ بدر کی شکست نے مشرکینِ مکہ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔