روزہ اور صحت

346

حکیم محمد سعید
وقت کی پابندی بہتر زندگی گزارنے کے لیے ایک لازمی جزو ہے، مذہب اور خصوصاً اسلام نے اس پابندی کے ساتھ پابندی اوقات کو نہایت بہتر انداز اور اہمیت سے مرتب کر کے انسان اور اللہ تعالیٰ کے مابین ایک بہترین ضابطہ ٔ حیات عطا کیا ہے اس ضبط حیات سے عبد و معبود کے درمیان ایک ایسی رشتہ بندی نے جگہ پائی ہے کہ جو انسان کے لیے درون کائنات غور وفکر کا اس طرح ذریعہ بن گیا ہے کہ انسان کو عطا کی جانے والی نیک نفسی شیطانی وسوسوں کا شکار نہ ہو سکے۔ پابندی اوقات پر عمل کرنے سے بحالی صحت جسمانی کے واسطے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایک ذہنی طہارت کا انسان خوگر ہوجاتا ہے جس سے روح کی بالیدگی کو تقویت ملتی ہے، وقت پر سونا جاگنا، وقت پر کھانا پینا، وقت پر کام اور آرام صحت کے لیے ضروری ہوتے ہیں جس کے باعث طہارت جسمانی و ذہنی مربوط ہو کر بالیدگی روح اور فکر کو آلودگی سے بچاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے میں آدمی کو دیگر تمام مہینوں سے زیادہ پابندی ٔ اوقات کا خوگر بننے پر زور دیا ہے، رمضان میں عبادات کے ساتھ یعنی نماز اور تلاوت قرآن مجید کے ساتھ روزے رکھنے اور افطار کے لیے اوقات مقرر فرماکر لمحے لمحے کا پابند کر دیا ہے اور ان پابندی ٔ اوقات کو ان عبادات کی روح قرار دیا ہے اور اس سب عمل کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر کے بالیدگی روح کا ایسا سامان فراہم کیا ہے کہ جب تک اعمال نیک اور بہتر وقت کی حدود میں انجام پزیر نہ ہوں گے نشاط روح انسان کو عبادت کے درجہ اُولا تک پہنچانے میں مدد نہیں دے سکتی۔ جدید ترین علوم سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ انسان کی شخصیت ایک کل کی حیثیت رکھتی ہے کسی انسان کی ایک اچھائی کو الگ الگ کر کے دیکھ کر اس کو اچھا ثابت نہیں کیا جا سکتا شخصیت کل ہی انسان کو عظیم مرتبے پر فائز کر سکتی ہے۔ انسانی طبیعت کے افعال و وظائف نفس اور جسم دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں نفس کی صحت اور جسم کی صحت ایک دوسرے سے متعلق اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہے۔ جسمانی امراض صحت نفس پر اثر ڈالتے ہیں اور ذہنی بیماریاں جسم کو بھی بیمار کر دیتی ہیں۔
سرور کائناتؐ نے شعبان کے آخری دن لوگوں کو جمع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا کہ: ’’لوگو! ایک بہت بڑے اور بابرکت مہینے نے تمہیں اپنے سایہ رحمت کے نیچے لے لیا ہے۔ اس مہینے کی ایک رات ایسی ہے جو اپنے فضائل و برکات کے لحاط سے ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور رات کے قیام اور نماز تراویح کو نفل قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں جس کسی نے نفل عبادت کے ذریعے تقرب الٰہی حاصل کیا اس کا اجر و ثواب ملتا ہے۔ جس کسی نے اس مہینے میں فرض نماز ادا کی اس کا اجر و ثواب اسی قدر ہوگا جس قدر کہ رمضان کے سوا دوسرے مہینوں میں ستر بار فرض ادا کرنے سے ہوتا ہے۔ یہ صبر و برداشت کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ہاں جنت ہے۔ اس مہینے میں مومن کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس کسی نے اس مہینے میں روزے دار کا روزہ افطار کرایا تو یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہے‘‘۔ نبی کریمؐ نے مزید فرمایا ’’اس مہینے کے پہلے دس دن موجب رحمت الٰہی، درمیانی دس دن موجب مغفرت الٰہی اور آخری دس دن عذاب جہنم سے نجات دلانے کا باعث ہوتے ہیں جس کسی نے اس مہینے میں اپنے غلام کی محنت اور مشقت میں کمی کر دی اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور دوزخ سے نجات دے گا‘‘۔
بہت سے جسمانی امراض محض نفسی اختلال یا ذہنی انتشار کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اس وقت تک ان کا شافی علاج نہیں ہوسکتا جب تک کہ نفسیاتی اسباب کو دور نہ کیا جائے اور ذہن کی اصلاح نہ کی جائے اور نفس میں پوشیدہ گتھیاں نہ سلجھا دی جائیں۔ امراض کا نفسیاتی علاج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ عملی پیش رفت نے بھی اس نقطہ نظر پر مہر توثیق ثبت کر دی ہے کہ صحیح اور مکمل علاج کے لیے نفس اور جسم دونوں کے افعال کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ روزہ انسان کے نفس اور جسم دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور دونوں کی اصلاح کرتا ہے۔ بھوک اور پیاس کی شدت میں سیر ہو کر کھانے اور تشنگی دور کرنے پر قادر ہونے کے باوجود جب آپ اپنے خالق کی خوشنودی کے لیے ان خواہشات کی تسکین نہیں کرتے، تنہائی میں بھی بھوک پیاس نہیں مٹاتے تو آپ کی روحانی قوتیں اور نفسی صلاحیتیں بڑی خوبی کے ساتھ نشوونما پاتی ہیں۔ اس طرح روزہ آپ کی قوت ارادی قوت برداشت خوداعتمادی اور قوت مقابلہ کو ترقی دینے کا بڑا اچھا ذریعہ بنتا ہے یہ وہ قوتیں ہیں اور یہ وہ صلاحیتیں ہیں کہ جو انسان کی مجموعی شخصیت اور ذہنی اور جسمانی صحت کو بحال اور قائم رکھتی ہیں۔ سماجی طور پر بھی ایک روزے دار بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے۔ دو روزے دار ایک دوسرے سے بہت قریب آجاتے ہیں اور یکساں ذہنی و جسمانی کیفیت کا تجربہ کرنے کی وجہ سے ایک دوسرے کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور باہمی احساسات کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس بنا پر روزے داروں میں اشتراک و تعاون اور مفاہمت و موانست کی ایک دلکش فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ جو ایک نہایت اعلیٰ معاشرے کی علامت ہے۔ خوشگوار سماجی فضا اور ہم آہنگ ماحول انسانی صحت کے لیے اکسیر کا حکم رکھتے ہیں۔
فاقہ صحت کی ایک ضرورت اور ایک طبی تدبیر ہے۔ فاقہ سے جسمانی نظام کی بحالی میں جو مدد ملتی ہے اس میں ماہرین طب کو اختلاف نہیں ہے چاہے وہ کسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔ روزمرہ زندگی میں بھی ہر شخص کو کبھی کبھی فاقے کے فوائد کا عملی تجربہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات جب دوسرے علاجی تدابیر کاریگر نہیں ہوتیں تو محض فاقے سے جسم کے طبعی افعال بحال ہو جاتے ہیں۔ فاقے یا روزے میں جو ترک غذا سے جسم کے خودکار پیچیدہ نظام کو فراغت میسر آجاتی ہے قوت مدبرہ بدن عذا کے ہضم و جذب میں صرف ہونے کے بجائے مرض کے دفاع اور توانائی کی بحالی میں صرف ہوتی ہے۔ روزے کی حالت میں قوت مدبرہ میں یکسو اور محفوظ رہ کر جسم کی صفائی میں لگ جاتی ہے اور ہر قسم کے سمی مواد کو جسم سے باہر نکال پھینکتی ہے۔ اس طرح دفاعی نظام نئی توانائی حاصل کر کے اپنے صحت بخش اثرات ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ انسانی بدن کو درست رکھتا ہے۔