اردن میں کیا ہورہا ہے؟

478

مشرق وسطیٰ میں سیاسی بھونچال اب کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ آئے روز ہنگاموں اور تبدیلیوں کی وجہ سے یہ خطہ خبروں کی زینت بنا رہتا ہے۔ مگر مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں کے ایوان رازداری کی دبیز تہوں تلے کام کرتے ہیں، یہاں کی سیاست میں کوئی شعلہ بھڑکتا بھی ہے تو عوام کی نظروں کے سامنے آنے سے قبل ہی درونِ خانہ اس کو فرو کردیا جاتا ہے۔ اردن کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے، اقتدار اور سماج پر ہاشمی بادشاہت کی گرفت مضبوط ہے۔ گزشتہ ہفتے اردن میں غیر معمولی سیاسی نقل وحرکت اور شاہی خاندان کے افراد اور اہم شخصیات کی گرفتاریوں کی خبریں آئیں تو وہ سب کے لیے حیران کن تھی۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور گتھی سلجھتی گئی تو واضح ہوگیا کہ کوئی انقلابی تبدیلی رونما نہیں ہورہی تاہم شاہی خاندان کی کمزوریاں اور اندرونی دراڑیں عیاں ہوگئی جس سے ان کی مضبوطی کے تاثر کو دھچکا لگا۔
مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی طرح اردن بھی برطانوی سامراج کی ایجاد ہے۔ ہاشمی خاندان کو سامراجی طاقتوں نے یہ خطہ ہبہ کیا اور بدلے میں ہاشمی خاندان نے ہر موقع پر ان طاقتوں کے ساتھ احسان مندی اور وفاداری کا رویہ اپنایا۔ 1994 میں اردن اسرائیل سے باقاعدہ تعلقات کا اعلان کرکے مصر کے بعد دوسرا عرب ملک بن گیا جس نے اسرائیل کو ریاستی سطح پر اعلانیہ طور پر قبول کیا۔ اردن کے حالیہ بادشاہ شاہ عبداللہ الثانی 1999 میں اپنے والد شاہ حسین کی وفات کے بعد برسر اقتدار آئے، انہوں نے اپنا ولی عہد اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ حمزہ بن حسین کو مقرر کیا۔ دونوں بھائی برطانیہ سے تعلیم یافتہ اور عسکری تربیت یافتہ ہیں۔ امیر حمزہ کو ولایت عہد کا منصب ملنے پر ان کو شاہی خاندان کا ابھرتا ہوا وارث اور مستقبل کا بادشاہ تصور کیا جارہا تھا، تاہم 2004 میں شاہ عبداللہ نے ان کو اپنے منصب سے معزول کرکے اپنے بیٹے حسین کو اپنا جانشین مقرر کردیا، کہا جاتا ہے کہ امیر حمزہ نے اس وقت فوج کی سربراہی کے عہدے کا مطالبہ کیا جو رد کردیا گیا۔ واضح رہے کہ اردن کی فوج اور خفیہ اداروں کا شمار خطہ کے بہترین اور با اثرترین اداروں میں ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایک اور تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ شاہ عبداللہ نے قبائل کا اثر کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سال ہا سال کی روایت کے برعکس فوج اور دیگر اہم سرکاری اداروں میں قبائل کا کوٹا عملی طور پر کم کردیا۔
قبائل نے اس فیصلے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ قبائل کی ناراضی کے علاوہ گزشتہ چند سال میں اردن کی معاشی صورتحال میں نمایاں تنزلی دیکھی گئی ہے، کرپشن کے اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں اردن کی ترتیب 45سے گر کر 60ہوگئی ہے۔ افراط زر اور بے روزگاری کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف آزادی اظہار پر قدغنیں بھی بڑھ گئی ہیں، تنقید کے سامنے حکومت کی قوت برداشت کم ہوتی جارہی ہے۔
ان تمام عوامل نے حالیہ بحران میں کردار ادا کیا، تاہم یہ تمام عوامل اردن کی داخلی سیاست سے متعلق ہیں جبکہ اردن کے سرکاری بیان کے مطابق حالیہ بحران اور نقص امن کی کوشش میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث تھے۔ اس دعوے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں مسئلہ فلسطین کے لیے ایک متنازع حل پیش کیا گیا جس کو ڈیل آف دی سنچری کا نام دیا گیا، سابق امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر اس تجویز کا داعی اور حامی تھے، ان کے ساتھ اسرائیل، مصر، امارات اور کسی حدتک سعودی عرب بھی اس مہم میں پیش پیش تھے۔ اردن کے اسرائیل سے گہرے اور قریبی تعلق کے باوجود شاہ عبداللہ الثانی نے تجویز کو یکسر مسترد کردیا اور اعلانیہ طور پر اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے خلیجی ممالک اور اردن کے درمیان ایک خاموش سرد مہری کی فضا قائم ہوگئی۔
اردن میں حالیہ بحران کی خبریں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ سابق ولی عہد امیر حمزہ کو نظر بند جبکہ سابق اسپیکر باسم عوض اللہ سمیت 20 اہم سیاسی اور قبائلی شخصیات کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اردن کے عسکری ذرائع اور تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ امیر حمزہ جو گزشتہ چند سال سے کھل کر حکومت پر تنقید کررہے تھے انہوں نے باسم عوض اللہ اور قبائلی سرداروں کے ساتھ مل کر ملک میں نقض امن کا منصوبہ بنایا تھا جس کو بروقت کارروائی کرکے ناکام بنادیا گیا ہے جبکہ اس منصوبے میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔ عالمی جرائد کی خبروں کے مطابق باسم عوض اللہ سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان کے مشیر ہیں، مختلف مواقع پر دونوں کو ایک ساتھ دیکھا گیا ہے، ان کی گرفتاری کے بعد یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ سعودی سرکاری وفد نے اردن جاکر باسم کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب امیر حمزہ اور شاہ عبداللہ کے درمیان شاہی خاندان کے افراد نے صلح کرادی ہے اور اتوار کو دونوں شخصیات نے ایک ساتھ اپنی والد کی قبر پر حاضری دی جس کی تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔ امریکا، برطانیہ سمیت دنیا کی بااثر طاقتوں نے حالیہ بحران کے بعد شاہ عبداللہ کی حمایت کا اعلان کیا، شاید اسی حمایت میں ان کی اقتدار پرگرفت کا راز پنہاں ہے کہ ان کی شخصیت اور موجودہ نظام اسرائیل، امریکا اور دیگر طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہے، لہٰذا یہاں پر تبدیلی کی کوئی کوشش با آسانی کامیاب نہیں ہوسکتی۔