الیکشن کمیشن کا صائب فیصلہ

314

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ کا حکم دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے اس حلقہ میں ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کے کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ دیا کہ پورے حلقہ میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ قومی اسمبلی کے اس حلقہ این اے 75 ڈسکہ، سیالکوٹ 4 میں ضمنی انتخابات کے نتائج میں غیر معمولی تاخیر اور عملے کے لاپتا ہونے پر بیس پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں ردو بدل کے خدشے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے متعلقہ افسران کو ضمنی انتخابات کے غیر حتمی نتائج کے اعلان سے روک دیا تھا۔ کمیشن نے حلقے کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کو نتائج کے اعلان سے روکنے کے ساتھ مکمل انکوائری اور ذمے داران کے تعین کی ہدایت بھی کی تھی۔ مسلم لیگ ن نے دھاندلی کے الزامات عائد کر کے الیکشن کمیشن سے پورے حلقہ میں ازسر نو انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیر اعظم عمران خاں نے حلقہ سے تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کو بیس مشتبہ پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کی درخواست دینے کے لیے کہا۔ الیکشن کمیشن نے فریقین اور ان کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد پورے حلقہ میں ضمنی انتخابات کو ناقابل اعتماد اور کالعدم قرار دے دیا اور صوبے کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو اپنے فرائض میں غفلت برتنے پر چار مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے جب کہ کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن اور آر پی او گوجرانوالہ کو موجودہ عہدوں سے تبدیل کر کے گوجرانوالہ ڈویژن سے باہر بھیجنے کی ہدایت کی جب کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو حکم دیا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سیالکوٹ، اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ، ڈی ایس پی ڈسکہ اور ڈی ایس پی سمبڑیال کو معطل کیا جائے اور ان کو آئندہ کسی الیکشن ڈیوٹی پر مامور نہ کیا جائے۔ ان تمام افسران کے خلاف الیکشن کمیشن خود انکوائری کرے گا یا وفاقی و صوبائی حکومتوں میں سے کسی کو انکوائری کرانے کا حکم دے گا اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ طویل عرصہ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ الیکشن کمیشن نے بطور ادارہ ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے اور قوم کو اپنے آزاد اور خود مختار وجود کا احساس دلایا ہے جو یقینا خوش آئند بھی ہے اور اس کے نتیجے میں مستقبل میں انتخابی عمل سے متعلق بہتر توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اس فیصلہ سے اس بات کا عندیہ بھی ملتا ہے کہ اداروں، خصوصاً الیکشن کمیشن نے اپنے موجودہ سربراہ کی قیادت میں خود کو غیر جانبدار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اداروںکی عزت اور ان پر عوامی اعتماد کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ خود کو سیاست میں ملوث ہونے اور مختلف سیاسی عناصر کی باہمی چپقلش میں فریق بننے سے باز رہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے جمعرات کے روز منصورہ لاہور میں شجر کاری مہم کے افتتاح کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفت گو میں بجا طور پر قومی اداروں کو توجہ دلائی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جتنی سیاست سے دور رہے گی اتنی ہی باوقار رہے گی۔ انہوں نے اعلیٰ عدالتوں سے بھی توقع وابستہ کی ہے کہ وہ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے قوم کی امنگوں کی ترجمانی کریں گی۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک میں انتخابات میں بار بار مختلف اداروں کی مداخلت، دھاندلی اور اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے دھونس، طاقت، اختیارات اور دیگر حربوں کے استعمال کی شکایات نے جہاں انتخابی نتائج کو غیر معتبر بنا دیا ہے وہیں ان اداروں کی عزت اور وقار کو بھی بری طرح مجروح کیا ہے، پیسے اور طاقت کے زور پر انتخابی عمل کو ہائی جیک کر لیا جاتا ہے۔ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ملک میں جامع انتخابی اصلاحات کے ذریعے صاف اور شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنایا جائے ۔ جسے عوام اور رائے دہندگان کا بھر پور اعتماد حاصل ہو اور ان انتخابات کے نتیجے میں قوم کو سیاست کے افق پر چھائے ہوئے شہزادوں اور شہزادیوں سے نجات مل سکے اور عوام کو ایسے نمائندے منتخب کرنے کا موقع مل سکے جن کا دامن ہر قسم کی خیانت اور بددیانتی سے پاک ہو، جو ملک و قوم کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوں اور جن کا جینا مرنا عام آدمی کے ساتھ ہو… اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا مشورہ نہایت صائب اور بروقت ہے جس پر توجہ دینا وقت کا تقاضا اور ملک و قوم اور قومی اداروں سب کے مفاد میں ہے ورنہ موجودہ حالات میں فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ سیاسی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور وقت گزرنے کے بعد دھونس، دھاندلی اور خونریزی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانا دشوار سے دشوار تر ہوتا جائے گا۔