بین الافغان مذاکرات کا مستقبل

358

جوبائیڈن کی حکومت میں واپسی کے بعد ٹرمپ کی جن پالیسیوں میں تبدیل کا مسئلہ زیر غور ہے ان میں افغانستان اور ایران خصوصیت رکھتے ہیں۔ نئی حکومت نے دوحا مذاکرات پر نظرثانی کا اشارہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات کی کامیابی میں شکوک پیدا ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں پیش کی جانے والی قیاس آرائیوں کے حوالے سے دوحا میں افغان طالبان کے ترجمان ڈاکٹر نعیم نے دوحا میں بین الافغان مذاکرات کے تعطل کی خبروں کی تردید کر دی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بعض اوقات صلاح مشورے کے لیے ایک دو دن کا وقفہ کیا جاتا ہے، اس اعتبار سے افغان طالبان کے نمائندے کی تردید خوش آئند ہے۔ اس کا سب کو علم ہے کہ افغانستان کے 80 فیصد علاقوں پر افغان طالبان کا کنٹرول ہے۔ اس لیے کابل حکومت اور افغان طالبان بین الافغان مذاکرات کے کلیدی فریق ہیں اور کابل حکومت غیر ملکی فوج کی بنیاد پر قائم ہے، پنٹاگان اور سی آئی اے کابل پر اپنی کٹھ پتلی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے فوجی موجودگی ضروری سمجھتی ہے لیکن ٹرمپ نے مکمل فوجی انخلا کا فیصلہ کیا۔ جو قوتیں بین الافغان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گی وہ افغانستان سمیت اس خطے کے امن کی دشمن ہوں گی۔