بھارت کا داخلی بحران

802

بھارت میں گزشتہ چھ ماہ سے جاری کسانوں کے احتجاج نے بھارت کے ’یوم جمہوریہ‘ کو یوم احتجاج بلکہ یوم سیاہ میں تبدیل کر دیا۔ مودی حکومت نے گزشتہ برس ستمبر میں تین متنازعہ زرعی قوانین نافذ کیے تھے جن کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک جاری ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر کسان تنظیموں نے ٹریکٹر ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا جسے دارالحکومت دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے لیکن ہزاروں احتجاجی کسان اپنے ٹریکٹر لے کر تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے دارالحکومت دہلی کے مرکزی علاقے میں پہنچ گئے، پولیس کسانوں کو روکنے کے لیے جگہ جگہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرتی رہی لیکن کسان پھر بھی آگے بڑھتے رہے۔ کسانوں کا ایک گروہ لال قلعہ تک بھی پہنچ گیا جہاں مشتعل مظاہرین نے لال قلعہ کی عمارت پر سکھوں کا مزہبی پرچم لہرا دیا جسے بعض لوگوں نے خالصتان کا پرچم قرار دیا ہے۔ لال قلعے پر کسانوں کے دھاوے کی وجہ سے فوجی پریڈ کی روایتی تقریب بھی منعقد نہ ہوسکی۔ احتجاجی کسان دہلی کے قلب میں واقع آئی ٹی او چوک کے قریب تک پہنچ گئے تھے جہاں سے پارلیمنٹ اور فوجی پریڈ کا میدان صرف دو کلو میٹر دور رہ گیا تھا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں نے کسانوں کی تحریک کو دبنے نہیں دیا اور تشدد کے نتیجے میں 80 افراد زخمی اور ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ پرتشدد واقعات کے بعد مودی حکومت نے دہلی میں نئے فوجی دستے تعینات کر دیے ہیں جس کے بعد دارالحکومت فوجی چھائونی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک کا آغاز پنجاب اور ہریانہ کے صوبوں سے ہوا جہاں سکھ اقلیت کی آبادی غالب ہے، لیکن احتجاجی تحریک میں پنجاب اور ہریانہ کے علاوہ مغربی یوپی اور راجستھان کے کسان بھی شامل ہیں۔ کسانوں کی تحریک پورے بھارت میں پھیلی ہوئی ہے۔ ممبئی، بنگلور سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی کسانوں کی احتجاجی تحریک جاری ہے۔ احتجاج کی ابتدا پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے کی جو نواح دہلی میں داخلی راستوں پر دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسانوں کا احتجاجی دھرنا گزشتہ دو ماہ سے جاری ہے۔ کسان تنظیموں کی قیادت حکومت کے اس موقف کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے کہ نئے زرعی قوانین بھارت کے کسانوں کے حق میں ہیں۔ کسانوں کی قیادت کا الزام یہ ہے کہ نئے قوانین کے بعد کسانوں کو زرعی پیداوار کے مناسب دام نہیں مل سکیں گے اور غذائی اجناس کی منڈیوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اس دوران میں حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان مذاکرات کے مختلف دور ہو چکے ہیں۔ عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن کسان تنظیمیں احتجاج روکنے کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔ یوم جمہوریہ پر ہونے والے دہلی کے پرتشدد واقعات اور لال قلعہ پر سکھوں کے مذہبی پرچم لہرائے جانے والے واقعے کسانوں کی احتجاجی تحریک کو نیا رخ دے دیا ہے اور یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا کسانوں کی احتجاجی تحریک کمزور پڑ جائے گی اور یہ مسئلہ ہندو سکھ کشیدگی میں تبدیل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے پرتشدد واقعات کی ان حلقوں نے بھی مذمت کی ہے جو کسانوں کی احتجاجی تحریک میں شریک ہیں۔ اس واقعے نے بھارت کے سیاسی اور سماجی نظام میں موجود داخلی فساد کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویدار ہے۔ اس دعوے کا سبب بھارت کی آبادی ہے لیکن بھارت کی برہمن قیادت اپنی قوم کو ایک بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ متنازعہ زرعی قوانین کے بعد اٹھنے والا احتجاج بھارتی کسانوں کی ابتر صورت حال کی عکاسی کرتا ہے اسی کے ساتھ اس مسئلے نے بھی سر اٹھا دیا ہے کہ سکھ اقلیت بھی بھارت میں مضطرب ہے۔ لیکن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ اتحاد کے بعد مودی حکومت کے متعصبانہ رویے میں شدت آتی جا رہی ہے اور وہ اختلافی آوازوں کو نظر انداز کرکے یکطرفہ فیصلوں کو نافذ کر رہے ہیں، مودی حکومت نے نئے شہری قوانین کے نفاذ کے بعد مسلم اقلیت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جس کے خلاف احتجاجی تحریک کا مرکز دہلی کا شاہین باغ بن گیا تھا۔ مودی حکومت نے مسلمانوں کے موقف کو سننے کے بجائے آر ایس ایس نے فسادیوں کو شے دی اور انہوں نے مسلم آبادیوں پر حملہ کیا، ان کی املاک کو نذر آتش کیا، قتل و غارت کی اور پولیس فسادیوں کی پشت پناہی کرتی رہی۔ مقبوضہ کشمیر تو اگست 2019ء سے مسلسل فوجی محاصرے میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہر سال یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں لیکن اس برس کسانوں کی تحریک نے دارالحکومت دہلی کو ’یوم سیاہ‘ میں تبدیل کر دیا۔ ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے کسان کن حالات کا شکار ہیں اور اب بی جے پی کی حکومت ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں کی خدمت کرنے کے لیے اپنے ہی شہریوں کا استحصال کرنے پر بھی تیار ہے۔ مودی حکومت کے تجربے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ایک متعصب طبقہ مذہبی، نسلی اور لسانی تنوع کی حامل آبادی کو جوڑ کر نہیں رکھ سکتا۔ کسانوں کے احتجاج نے اس منظر کو بھی دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا ہے کہ بھارت میں طاقتور اور توانا سکھ اقلیت بھی اپنے حکمرانوں سے مطمئن نہیں ہے۔ دہلی کے لال قلعے پر سکھوں کے مذہبی پرچم لہرانے کا واقعہ کسان تحریک کو منتشر اور کمزور کرے گا یا نہیں، اس کا اندازہ مستقبل میں ہو جائے گا، لیکن سکھ ہندو کش مکش اس سطح پر آگئی ہے جس کے نتیجے میں نیا فساد پیدا ہوگا۔ بھارتی سماج میں داخلی فسادات کا سبب آر ایس ایس کی متعصبانہ ذہنیت ہے جس نے بھارت کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا ہے۔