بجلی کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ

567

تحریک انصاف کی حکومت نے جو تبدیلی کے نعروں اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں پر اقتدار میں آئی تھی، بجلی کے نرخوں میں ایک بار پھر ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ اضافہ کا اعلان کیا ہے، حکومت نے گزشتہ ماہ بھی بجلی ایک روپیہ چھ پیسے فی یونٹ مہنگی کی تھی پچھلے ایک ماہ کے دوران پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں بھی دو دفعہ بڑھائی جا چکی ہیںیہی حال گیس کا ہے جو عوام کو دستیاب ہو یا نہ ہو، اس کے بھاری بل بہرحال لوگوں کو ادا کرنا ہی پڑتے ہیں، یوں ریلیف کے وعدے پر اقتدار سنبھالنے والی وزیر اعظم عمران خاں کی حکومت تسلسل سے عوام کے لیے تکلیف کا باعث بننے والے اقدامات کر رہی ہے اور اس کا رویہ مسلسل یہ ہے کہ نرخ بالاکن، ارزانی ہنوز۔ کسی بھی اچھی حکومت کا بنیادی فریضہ یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنی رعایا کے آرام وسکون کا خیال رکھے جمہوریت کا مفہوم عام طور پر آسان فہم الفاظ میں یہی بتایا جاتا ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے مگر ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے کہ یہاں نام تو عوام کا لیا جاتا ہے مگر عملاً یہاں فیصلے عوام کی بجائے کہیں اور کئے جاتے ہیں چنانچہ اقتدار میں آنے والے تمام حکمران نعرے تو عوام کی فلاح و بہبود ہی کے بلند کرتے ہیں مگر ان کے فیصلے بعض ایسی قوتوں کے تابع ہوتے ہیں جن کا مقصد پہلے ہی غربت، مہنگائی اور بے روز گاری کے ہاتھوں ستم رسیدہ عوام کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ وزیر اعظم عمران خاں بھی اقتدار میں آنے سے قبل عالمی بنک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کو گناہ کبیرہ اور ملکی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیتے رہے ہیں مگر اسے ملک و قوم کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ اپنی ’’یوٹرن‘‘ پالیسی کے تحت ہر وہ کام کر رہے ہیں جو کل تک ان کے نزدیک سخت قبیح اور ناقابل قبول تھا چنانچہ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ ہماری معیشت اور بجٹ سے متعلق تمام فیصلے آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی میں کئے جا رہے ہیں جس کی قرض دینے کی اولین شرط ہی یہی ہوتی ہے کہ مقروض ملک میں بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور استحصالی ٹیکسوں کی تعداد اور شرح میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے جس کا نتیجہ بہر صورت جان لیوا مہنگائی اور بے روز گاری میں اضافہ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ تین روز قبل جاری کی جانے والی اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی اپنی رپورٹ کے مطابق حکومتی قرضوں میں گزشتہ ایک سال کے دوران پونے چار کھرب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے اور ملکی معیشت میں سرکاری قرضوں کا بوجھ 36 کھرب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے، عمران خاں کے اقتدار سنبھالنے کے وقت یہ قرض سوا 24 کھرب تھا جس میں یومیہ تیرہ ارب سے زائد اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے مرکزی بنک کی طرف سے جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق 36 کھرب روپے کے ان قرضوں میں عالمی مالیاتی فنڈ، (آئی ایم ایف) سے لیا گیا قرض شامل نہیں جس کے سولہ ارب ڈالر کے قرضے کی اگلی قسط کے حصول کی خاطر حکومت آنکھیں بند کر کے اس کی کڑی سے کڑی شرائط پورا کرنے کے لیے کوشاں ہے خواہ اس کی کتنی بھی بھاری قیمت اس غریب قوم کو ادا کرنا پڑے۔ آئی ایم ایف کی ظالمانہ ہدایات کے تابع بجلی کے نرخوں میں ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ کے تازہ اضافہ کا جو فیصلہ حکومت نے کیا ہے حسب سابق اس کی ذمہ داری بھی ماضی کی حکومتوں پر ڈال دی گئی ہے۔ وفاقی کابینہ میں توانائی کے قلم دان کے حامل عمر ایوب خاں نے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بجلی کے نرخوں میں اضافہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اضافہ ماضی کی حکومتوں کی وجہ سے کیا جا رہا ہے اور نواز لیگ کی حکومت کی پالیسیوں کے سبب بجلی 43 فیصد مہنگی بنتی ہے سابق حکومت نے بدنیتی پر مبنی معاہدے کئے جن کے تحت کیپیسٹی چارجز ادا کرنا ضروری ہیں، ن لیگ حکومت بارودی سرنگیں بچھا کر گئی ہے، ایسا خسارہ چھوڑا ہے کہ ادائیگیاں کرنی ہی پڑتی ہیں خواہ بجلی استعمال کی جائے یا نہ کی جائے، بجلی کے کارخانوں کو 2023 ء تک ایک ہزار 455 ارب روپے ادائیگی کرنی پڑے گی، اس مد میں 2019ء تک 227 ارب روپے کا خسارہ ہمیں ملا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر نے کہا بجلی کے مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں، معیشت کا پہیہ تیزی سے چل رہا ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوار اور ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے، پہلے 6 ماہ میں 208 ارب روپے کے ترقیاتی کام ہوئے، طویل عرصے بعد کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہو گیا معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے کہا آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے حتمی مراحل میں ہیں، پچھلے چند برسوں میں بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے، یکم فروری سے بجلی کے نظام سے منسلک یونٹس کو گیس کی سپلائی بند کر رہے ہیں،اگلے چند برسوں میں بجلی کی قیمتوں میں کمی آئے گی 450 ارب کے بقایا جات کی ادائیگی اس سال کر دی جائے گی، بجلی کی قیمتوں میں تازہ اضافے سے صارفین پر 200 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ یہ عجب منطق ہے کہ ایک ہی نشست میں ساتھ ساتھ بیٹھ کر وزیر منصوبہ بندی و ترقیات یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملکی معیشت کا پہیہ تیزی سے چل رہا ہے جب کہ ان کے پہلو میں بیٹھے وزیر اعظم کے مشیر یہ فرما رہے ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ معیشت کا یہ کیسا پہیہ ہے جس کے تیزی سے چلنے کے باوجود بجلی کی طلب میں کمی ہو رہی ہے۔ کس کا یقین کیجئے کس کا نہ کیجئے۔ اسی طرح وزیر اعظم کے مشیر محترم تابش گوہر صاحب کے اس ارشاد سے متعلق کہ اگلے چند برسوں میں بجلی کی قیمتوں میں کمی آئے گی، شاعر برسوں پہلے کہہ گیا ہے ؎
ترے وعدے پہ جئے تو یہ جان جھوٹ جاتا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اب تک جتنے دعوے اور وعدے کئے ہیں سب ’’یوٹرن پالیسی‘‘ کی نذر ہو چکے ہیں اس لیے اس کے آئندہ سے متعلق دعوئوں اور وعدوں پر یقین کرنے کا بھی کوئی جواز اور اساس موجود نہیں۔ آئی ایم ایف کے حکم کے علاوہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کا بڑا سبب کرپشن ہے جس کے خاتمہ کا نعرہ وزیر اعظم عمران خاں اقتدار میں آنے سے پہلے بہت بلند آواز میں لگاتے رہے ہیںاور ابھی تک لگا رہے ہیں وہ صبح شام یہ مالا جپتے سنائی دیتے ہیں کہ کرپٹ عناصر کو این آر او نہیں دوں گا کہ یہ ملک سے غداری کے مترادف ہے مگر زمینی حقائق وزیر اعظم کے دعوئوں کی تائید اور تصدیق نہیں کرتے کہ ان کے اقتدار کے اڑھائی برس کے دوران ایک بھی بد عنوان، نشان عبرت نہیں بنایا جا سکا۔ بجلی ہی کے معاملہ کو دیکھا جائے تو ممکن ہے ماضی کی حکومتوں پر وفاقی وزراء کے الزامات بھی درست ہوں تاہم بجلی کی مہنگائی کے اسباب میں بجلی چوری، اس کے ضیاع اور سالہا سال سے سرکاری اور نجی اداروں کی جانب کھربوں روپے کے واجبات کی عدم وصولی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر تحریک انصاف کے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں ان خرابیوں کو دور کرنے کی جانب بھی کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔حالانکہ یہ بھی کرپشن ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی دعویدار حکومت سب کو نظر آنے والی ان خرابیوں پر ہی قابو پا لے تو شاید اسے بار بار عوام پر قیمتوں میں اضافے کا ناقابل برداشت بوجھ نہ ڈالنا پڑے۔