سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات

600

وزیراعظم عمران خان نے تجویز دی ہے کہ ’’فارن فنڈنگ کیس‘‘ کی کھلی سماعت کی جائے اور وہ اسے ٹی وی پر براہ راست دکھانے پر تیار ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس میں تمام پارٹی سربراہوں کو بٹھا کر کیس سننا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ کئی ممالک حزب اختلاف کی جماعتوں کو رقم دیتے رہے ہیں لیکن میں تعلقات خراب ہونے کے ڈر سے ان کے نام نہیں بتا سکتا۔ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ یعنی غیر ملکی سرمایہ وصول کرنے کے الزام میں الیکشن کمیشن میں درخواست زیر سماعت ہے اور الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ جوابی طور پر تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے چندوں پر اعتراض داخل کردیا ہے۔ حزب اختلاف کا الزام یہ ہے کہ غیر ملکی چندوں میں بھارت اور اسرائیل کے شہری بھی شامل ہیں۔ عمران خان کا الزام ہے کہ کئی ملکوں کی حکومتیں پاکستان کی سابق حکمران سیاسی جماعتوں کی مالی مدد کرتی رہی ہیں۔ یہ صورت حال بہت سنگین ہے۔ اگر شفاف تحقیقات کے نتیجے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو ملنے والے چندوں میں بے ضابطگی ثابت ہوجائے تو قانون کے مطابق پوری پارٹی کالعدم قرار دی جاسکتی ہے۔ المیہ یہ ہوا ہے کہ کسی بھی ادارے کی دیانت داری اور شفافیت پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے دفتر پر مظاہرہ کیا ہے اور الزام عاید کیا ہے کہ حکومتی جماعت کے خلاف تحقیق میں تاخیری حربے اختیار کیے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے خلاف مدعی اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے جس کی وجہ سے سماعت رک گئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ وہ کسی کے دبائو میں نہیں آئیں گے۔ اس مقدمے نے یہ سوال اُٹھا دیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مالی مدد دینے والے کون لوگ ہوتے ہیں، غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات ماضی میں لگتے رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ پہلی بار اداروں کے سامنے آگیا ہے۔ بدقسمتی سے انتخابی عمل مہنگا بنادیا گیا ہے اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات کو شفاف رکھنے اور ان کا جائزہ لینے کے قواعد و ضوابط پر عمل ضروری ہے۔ انتخابی عمل کو جب تک سستا نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ایماندار اور دیانت دار قیادت سامنے نہیں آسکتی۔