غیر آئینی اقدام پر حکومت کا اصرار

695

 

پاکستان میں جمہوریت کیوں نہیں پنپ سکی، اس سوال کا جواب سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے پاس ہی ہے۔ اس کا سبب ان حکومتوں کے سلیکٹرز ہیں وہ ان حکمرانوں سے اپنی مرضی کے کام لینا چاہتے ہیں۔ اس لیے کی قانون کو مکمل نافذ نہیں ہونے دیتے ان قوانین میں جھول خود چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی بد قسمتی کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ یا ہاتھ اٹھا کر منعقد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس پر صدارتی ریفرنس بھی داخل کر دیا گیا۔ لیکن معلوم ہوا کہ آئین کی شق 226 واضح ہے جبکہ آرٹیکل 59، 219 اور 221 میں سینیٹ انتخابات کا باقاعدہ ذکر ہے اور آرٹیکل 226 میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے سوا تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہونے کا ذکر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کل پی ٹی آئی مشکل کا شکار ہے اسے تو خطرہ ہے کہ اس کے ارکان فلور کراس کر جائیںگے۔ ان کے خلاف ووٹ دیںگے اس لیے ہاتھ اٹھا کر انتخاب کرانے کے لیے عدالت عظمیٰ میں ریفرنس دائر کردیاگیا عدالت نے بہت واضح پیغام دیا ہے کہ عدالت کو اس معاملے میں نہ گھسیٹا جائے۔ الیکشن کمیشن پاکستان اور جماعت اسلامی نے بھی اوپن بیلٹ سے انتخابات کو آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ الیکشن کمیشن اور جماعت اسلامی نے عدالت عظمیٰ میں اپنا جواب داخل کردیا۔ جس میں کہا گیا کہ حکومت عدلیہ کی غیر جانبداری کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔ جب کوئی پارٹی حکومت میں ہو تو اسے ایسا کوئی قانون پسند نہیں آتا جو اس کی حکمرانی کے راستے میں رکاوٹ بنے یا اس کی حکمرانی ختم کرنے کا سبب بنے۔ بات صرف ایک قانون کی تو نہیں، اپنی مرضی سے اپنے منتخب ارکان کو ووٹ دینے کا حق نہ دینے والی پارٹیاں پورے ملک کو اچھا نظام کیونکر دے سکیں گی، اسی قسم کی حرکت مردم شماری کے معاملے میں کی گئی ہے۔ کراچی جیسے شہر کی آبادی سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو غائب کر دیا گیا۔ اس کے خلاف جماعت اسلامی کراچی نے مہم چلائی اور اب بھی اس کی آواز اٹھا رہی ہے لیکن کراچی کے حقوق پر کئی بار ڈاکا ڈالنے والوں نے ایک وزارت کے وعدے پر مرکزی حکومت سے سودے بازی کر لی۔ اب یہ دونوں اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ معاملہ اگلی مردم شماری تک موخر کر دیا جائے۔ ایک لالی پاپ دیا گیا ہے کہ اگلی مردم شماری قبل از وقت کرا لی جائے گی۔ لیکن پاکستان میں کوئی کام وقت پر کرنے کی روایت نہیں ہے۔ یہ حکمران تو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس ہی وقت پر نہیں بلاتے۔ مردم شماری بھی کئی کئی سال تاخیر سے کراتے ہیں۔ اب نئی مردم شماری کیونکر وقت سے پہلے کرا لیں گے۔ گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کراچی میں لہک لہک کر گاتے تھے کہ تبدیلی آئی رے…روک سکو تو روک لو… لیکن وہ خود بہتے ہوئے الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے ایک دھڑے کے مرکز بہادرآباد پہنچ گئے۔ وہاں بیٹھ کر دونوں پارٹیوں نے جمہوریت کے لیے گراں قدر فیصلے کیے۔ پہلا فیصلہ یہ کیا کہ دونوں پارٹیاں کراچی کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی گنتی ہڑپ کرنے پر متفق ہو گئیں۔ اب کراچی کو اگلی مردم شماری تک ہر سال ڈیڑھ کروڑ آبادی کی مناسبت سے فنڈز ملیں گے، صحت کی سہولیات اسی اعتبار سے ملیں گی۔ ڈیڑھ کروڑ آبادی کے اعتبار سے ملنے والی طبی سہولیات کس طرح تین کروڑ لوگوں کی ضرورت کو پورا کریں گی۔ اس سے قبل جب کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ تسلیم کی گئی تھی اس وقت دی جانے والی سہولتیں اور فنڈز بھی کراچی کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے تھے۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے کراچی کے حق پر جو ڈاکا مارا ہے اس کے نتیجے میں بلدیاتی مسائل مزید بڑھیں گے۔ کیونکہ یہ حقیقت سب کے علم میں ہے کہ بلدیات کے معاملے میں آج کل پی ٹی آئی کی رال بھی ٹپک رہی ہے جبکہ ایم کیو ایم نے تو کراچی کو بری طرح نچوڑا ہے۔ اب ایک دوسرے کے پکے دشمن کراچی کو لوٹنے کے لیے ایک ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ لوگ سینیٹ انتخابات شفاف کرائیں گے۔ اب یہ کراچی کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی گنتی غائب کرکے کراچی کے رہے سہے وسائل بھی لوٹنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان تمام امور کا دارومدار ان پارٹیوں کے سلیکٹرز پر ہے کہ وہ کس حد تک جمہوری اصولوں کی پاسداری کریں گے اور کس حد تک کراچی کو اس کے حقوق دیں گے۔ دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے جو افسوس ناک فیصلہ کیا ہے وہ بجائے خود جمہوریت دشمنی کا نرالا انداز ہے۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے حق پر ڈاکا ڈالنے کے خلاف احتجاج کرنے والی پارٹی کو نظر انداز کیا جائے۔ گویا اس سے زیادہ ڈھٹائی نہیں ہو سکتی کہ جمہوریت کی رٹ لگائی جائے اور کسی جمہوری قدر کو وزن بھی نہ دیا جائے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ وفاق اور سندھ کراچی کے منصوبے مشترکہ طور پر مکمل کرنے پر متفق ہو گئے ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ اسد عمر اور ایم کیو ایم کے امین الحق نے پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا ہے لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ پی پی پی کی جگہ پی ٹی آئی آگئی ہے ان کے ساتھ اور گروہ بھی تھے۔ یہ تینوں مل کر کراچی اور اہل کراچی کو لوٹتے تھے۔ اب پی ٹی آئی کو شامل کرکے نیا گروہ تشکیل دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کراچی پر کم و بیش تیس برس اس قسم کے ڈاکو اتحاد کا راج رہا ہے صرف پانچ برس کے لیے نعمت اللہ خان کا دور آیا اس کے بعد پھر جنرل پرویز مشرف نے اس ڈاکو راج کو بحال کر دیا تھا۔