کورونا ویکسین:انڈونیشیا کی منفرد حکمت عملی

254

انڈونیشیا کی حکومت نے کورونا ویکسین کے استعمال کے حوالے سے منفرد حکمت عملی  کو اپناتے ہوئے صرف جوانوں کو ویکسین لگانے کا  فیصلہ کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ ہفتے انڈونیشیاء کے 59 سالہ صدر جوکو ویڈو نے ملک میں سب سے پہلےکورونا  ویکسین کی خواراک لی جبکہ 77 سالہ عمر رسیدہ نائب صدر معروف امین نے ویکسین کا استعمال نہیں کیا۔

 

آخر اس حکمت عملی کی وجہ کیا ہے:؟

حکومت کو  کورونا ویکسین کی اس منفردحکمت عملی کو  اختیار کرنے کی تجویز دینے والے  پروفیسر ڈاکٹر امین سوئبینڈریو کے مطابق جوانوں کو ویکسین کی خوراک دینے میں ترجیح دینے کا واحد مقصد یہ ہے  کہ  ان کی قوت مدافعت ضعیف  لوگوں کی نسبت زیادہ بہتر ہوتی ہے،اور یہ گھروں سے باہرنکل کر کام کاج بھی کرتے ہیں جس کے سبب انہیں  کورونا سے متاثر ہونے کے زیادہ امکانات ہیں لہذا حکومت نے کورونا ویکسین کی خوراک صرف جوانوں کو دینے کی حکمت عملی کو اپنایا ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی  ہوگا کہ ملک کی آبادی کے بڑے حصے میں بیماری کے پھیلاؤ کا زور ٹوٹ جائے گااور لوگ بہترین قوت مدافعت کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ  دنیا کی 60 سے 70 فیصد آبادی کی  اگر قوت مدافعت بڑھ جائے تو عین ممکن ہے کہ دنیا کو اس وباء سے چھٹکارہ حاصل ہوجائے  لیکن اس کے لیے مؤثر حکمت عملی کو اپناتے ہوئے  تسلسل برقرار رکھنے کی بھی ضرورت ہے اگر یہ کام کرلیا جائے تو یقیناً اس وباء سے نجات مل سکتی ہےاورحکومت کورونا کے سبب تباہ حال ہوجانے والی معیشت  کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔

حکومت کی اس حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے وزیر صحت گونادی صدیقن نے کہا کہ اس پالیسی کو اپنانے کا مقصد ڈوبتی معیشت کو سہارا دینا نہیں ہے بلکہ حکومت کی اولین ترجیح عوام کی صحت ہے۔ جبھی جوانوں کو ویکسین لگانے میٰں ترجیح دی جارہی ہے تاکہ وباء کو پھیلنے سے روکا جائے ۔اس ویکسین کا استعمال مزدوروں، پولیس،سیکیورٹی گارڈزاور ڈرائیور وغیرہ پر کیا جارہا ہے کیونکہ عوامی مقامات پر ان کے سبب وباء پھیلنے کا خدشہ ہے،اور ان تمام اقدامات کا واحد مقصد لوگوں کی صحت کا تحفظ ہے۔

واضح رہے کہ انڈونیشیاء کی آبادی 270 ملین ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میں کورونا سے متاثر ہونے والے ممالک میں یہ سرِ فہرست ہے،حکومتی اعداد و شمار کے  مطابق 80فیصد محنت کش طبقہ کورونا سے متاثر ہوچکا ہے،ملک کی آبادی کے بڑے حصے کا ذرائع آمدن  مختلف قسم کے رسمی کام ہیں یہی وجہ ہے کہ گھروں پر رہ کر کام کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے جبھی ملک کی معیشت کو کورونا کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے۔